بدحالی کا بڑا نشانہ ۔معیشت اور صحت
سید شاہد اکرام سے
آسمان کی آنکھ اور کروڑوں انسان روزانہ اپنے ہم وطنوں کی بے بسی او بے کسی کے مناظر دیکھ رہے ہیں۔ لاکھوں ایسے ہیں جو امدادی کیمپوں یا دوسرے محفوظ مقامات پر کسمپرسی کے عالم میں زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ حکومتی محکمے اور امدادی ادارے اگرچہ کسی حد تک انہیں خوردونوش کی اشیا فراہم کر رہے ہیں مگر ان کی کئی لازمی ضروریات ایسی ہیں جوپوری نہیں ہو پارہیں۔ خصوصاً کیمپوں میں متاثرین کے لئے حفظان صحت کا کوئی موٴثر انتظام نہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ کئی طرح کے مہلک امراض نے انہیں اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور روزانہ بیسیوں افراد زندگی سے ہاتھ دھو رہے ہیں۔ مرنے والوں میں اکثریت کم سن بچوں کی ہے۔ اگرچہ سیلابی ریلا اب آخری مرحلے میں ہے بعض جگہ پانی اترنا شروع ہو گیا ہے مگر جہاں جہاں پانی کھڑا ہے اسے پوری طرح سوکھنے میں کم سے کم ایک مہینہ لگ سکتا ہے۔ یہ مہینہ متاثرین کے کیمپوں اور سیلاب زدہ شہروں پر بہت بھاری گزرے گا کیونکہ کھڑے پانی میں تعفن پیدا ہو رہا ہے جس میں چلنے پھرنے والے ہیضہ، ڈائریا، آنکھوں کی سوزش اور دوسری جان لیوا بیماریوں کا شکار ہورہے ہیں۔ اگرچہ حکومت اور امدادی اداروں نے متاثرہ علاقوں میں طبی ٹیمیں روانہ کرنے کے اعلانات کئے ہیں لیکن عملی طور پر متاثرین کے کیمپوں میں طبی عملہ ضرورت کے مقابلے میں بہت کم نظر آرہا ہے۔ مریضوں کی دیکھ بھال کا معقول انتظام نہیں۔ پھرادویات بھی نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ لوگ، خصوصاً بوڑھے اور بچے مررہے ہیں۔ وہ غذائیت کی کمی کا شکار ہیں ان کے جسم بیماریوں کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں۔ یہ تو سیلاب زدگان کے کیمپوں اور پناہ گاہوں کا حال ہے۔ آگے چل کر ان امراض کا دائرہ اور وسیع ہوسکتا ہے کیونکہ وبائی امراض پھیلے تو شہروں اور دیہات میں ان کی واپسی کے عمل کے دوران دوسرے لوگ بھی ان بیماریوں کا نشانہ بن سکتے ہیں جس سے صورتحال مزید خطرناک ہو جائے گی۔ سیلاب زدہ علاقوں میں صحت و صفائی کے مسائل پر وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کی صدارت میں ایک اعلیٰ سطحی اجلاس بلایا گیا ہے۔ توقع ہے کہ اس میں متاثرہ علاقوں میں وبائی امراض پھوٹنے سے روکنے اور لوگوں کو علاج معالجے کی سہولتیں فراہم کرنے کے لئے حکمت عملی وضع کی جائے گی۔ حکومت کو چاہئے کہ زبانی جمع خرچ کی بجائے ٹھوس حکمت عملی تیار کر کے اس پر سختی سے عمل بھی کرائے اور موجودہ مرحلے پر ہی متاثرین کے کیمپوں میں حفظان صحت کی سہولتوں کا بندوبست کرے تاکہ مستقبل میں بیماریوں کوپھیلنے سے روکا جا سکے۔سیلاب نے دوکروڑ عوام کی زندگی کو ہی تہ و بالا نہیں کیا، ملک کے پورے معاشی ڈھانچے کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ صحت کے ساتھ ساتھ اس قدرتی آفت کا سب سے بڑا نشانہ ملک کی معیشت بنی ہے۔ انفراسٹرکچر تباہ ہوگیا ہے۔ پلوں، سڑکوں، نہروں، ڈیمز، کارخانوں اور کئی دوسرے قیمتی اثاثوں کو بری طرح نقصان پہنچا۔ اربوں روپے کی کھڑی فصلیں سیلاب کی نذر ہوگئیں۔ سینکڑوں دیہات صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔اب تک جو تخمینے لگائے گئے ہیں ان کے مطابق ملک کو کھربوں روپے کا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ تلافی کیلئے بیرونی ممالک اور اداروں سے امداد حاصل کی جا رہی ہے۔ ایک حکومتی وفد آئی ایم ایف کے حکام سے رعائتیں لینے کے لئے بھی جا رہاہے۔ اندرون ملک عطیات جمع کئے جا رہے ہیں اورترقیاتی و غیرترقیاتی حکومتی اخراجات میں کٹوتی کر کے فنڈز سیلاب زدگان کی بحالی اور تعمیرنو کے کاموں کے لئے مختص کرنے کا اعلان کیا گیا ہے مگر نقصان اتنا زیادہ ہوا ہے کہ یہ سارے اقدامات ناکافی لگتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اور متعلقہ ادارے ماہرین معیشت کے صلاح مشورے سے ملک کی تعمیرنو کیلئے واضح سمت کا تعین کریں۔ اس کیلئے بڑے غوروفکر اورسب کو اعتماد میں لے کر چلنے کی ضرورت ہے۔ روڈ میپ تیار کرلیا جائے تو سیلاب سے پیدا ہونے والے چیلنج کا مقابلہ کرنا نسبتاً آسان ہو جائے گا۔اس کے علاوہ حکمرانوں اور سیاسی لیڈروں کو پرتعیش زندگی کو خیرباد کہہ کر سادگی اختیار کرنا ہوگی۔ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے اپنے قیمتی سوٹ اورٹائیاں نیلام کر کے حاصل شدہ رقم سیلاب زدگان کے فنڈ میں دینے کا اعلان کر کے ایک عملی مثال قائم کی ہے۔ دوسرے لیڈروں کو بھی ان کی تقلید کرنی چاہئے۔ لیڈرسادگی اختیار کریں گے تو عوام بھی ان کی پیروی کریں گے۔ اس طرح کفایت شعاری کا کلچر فروغ پائے گا جونہ صرف ملکی معیشت کے لئے فائدہ مند ہوگا بلکہ بڑھتی ہوئی مہنگائی پرقابو پانے میں بھی مدد ملے گی۔قوم اس وقت بہت بڑی ابتلا اور آزمائش کے دورسے گزر رہی ہے مگر افسوس، صدافسوس کہ ملک دشمن عناصر نے اس سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا، نہ اپنا وطیرہ بدلا۔ تخریب کاری اور دہشت گردی کا اب بھی دوردورہ ہے۔ وانا میں ایک نوعمر خودکش حملہ آور نے مسجد میں خود کو بارود سے اڑالیا جس سے ایک سابق ایم این اے اور عالم دین سمیت 30افراد شہید ہوگئے۔ اس نوجوان کو استعمال کرنے والے درندہ صفت مجرموں نے اللہ کے گھر کو بھی اپنے شیطانی کھیل سے مستثنیٰ نہیں کیا یہ واقعہ اس وقت رونما ہوا جب سابق ایم این اے مولانا نورمحمد مسجد میں درس قرآن دے رہے تھے اور ایک سونمازی درس میں شریک تھے۔ اسی روز کرم ایجنسی اور پشاور میں بھی دودھماکے کرائے گئے جن میں بارہ بے گناہ لوگ شہید ہوگئے۔ قوم اتنی بڑی افتاد سے دوچار ہے اور کچھ لوگ اس کی مدد کرنے کی بجائے اپنے مذموم اداروں کی تکمیل میں لگے ہوئے ہیں۔ انہیں کوئی احساس نہیں کہ لاکھوں انسان کس اذیت سے دوچار ہیں مگر یہ کام تو وہ لوگ کر رہے ہیں جن کا مشن ہی انسانوں کی جانیں لیناہے۔ان کے علاوہ بھی کتنے لوگ ہیں جو قتل وغارت اور اخلاقی جرائم میں مصروف ہیں۔ ان مجرموں کے ”کارنامے“ روزانہ اخبارات کی زینت بنتے ہیں۔ سرکاری محکموں کے عمال نے بھی ملک پر سیلاب کی صورت میں نازل ہونے والے اللہ کے عذاب سے کوئی سبق نہیں سیکھا اور بدعنوانیوں سے باز نہیں آئے۔ اتنی بڑی قیامت ٹوٹنے پر معاشرے کے اجتماعی رویوں میں بھی تبدیلی آنی چاہئے تھی مگر ایسا کچھ نہیں ہوا۔ سب کچھ پہلے کی طرح ہو رہا ہے۔ بازاروں میں عید کی خریداری زوروں پر ہے۔افطار کے نام پر دعوتیں اڑائی جا رہی ہیں۔ سیرگاہیں تفریح کے لئے آنے والوں سے بھری پڑی ہیں حالانکہ یہ قوم کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ اپنے اعمال اور رویوں پر نظرثانی کاوقت ہے۔ سب مستقبل کی منصوبہ بندی او رصورت گری میں شریک ہوں گے تو حالات میں بہتری اور تبدیلی آئے گی۔
No comments:
Post a Comment