مصیبت زد ہ عوام تبدیلی بھی چاہتے ہیں، بہتری بھی
سید شاہد اکرام سے
پاکستان کے عوام اس وقت جس بدترین صورتحال سے دوچار ہیں ان کے دل اور ذہن میں الاؤ بھڑک رہے ہیں لاوا پک رہا او ر وہ حالات میں تبدیلی چاہتے ہیں بہتری بھی۔ ملک ایک عرصہ سے ارضی و سماوی آفات کا شکار ہے۔ ایک مصیبت ختم نہیں ہوتی کہ دوسری نازل ہو جاتی ہے۔ پہلے دہشت گردی نے عوام کا جینا حرام کر رکھا تھا اور منتخب سیاسی حکومت بھی دہشت گردوں اور تخریب کاروں کا قلمع قمع کرنے کے حوالے سے اپنے اقدامات میں کامیاب نظر نہیں آ رہی تھی اور بے بسی کا شکار تھی۔ کتنی ہی انسانی جانیں اور قیمتی املاک دہشت گردوں کی بے رحمانہ کارروائیوں اور خودکش حملوں کا نشانہ بن گئیں۔ سیاسی جماعتوں نے اس آفت کا متحد ہو کر مقابلہ کرنے کی بجائے ایک دوسرے پر الزامات لگانے کا وطیرہ اختیار کیا جس سے بیرونی طاقتوں اور اداروں کو پاکستان مخالف پراپیگنڈے کا موقع مل گیا انہوں نے دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی مخلصانہ کوششوں کو کمزور اور بے اثر ثابت کرنے کیلئے ”ڈو مور“ کا راگ الاپنا شروع کر دیا۔ برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے تو بھارت کی سرزمین پر بیٹھ کر حکومت پاکستان کی مذمت کی اور اسے دہشت گردی پھیلانے کا ذمہ دار قرار دیا۔ دہشت گردی پر ابھی قابو نہیں پایا جا سکا تھا کہ مون سون کی تیز بارشوں کے نتیجے میں آنے والے تاریخ کے بدترین سیلاب نے پورے ملک کا انفراسٹرکچر تباہ کر دیا۔ دو کروڑ انسان اس آفت کا نشانہ بنے ہزاروں کی جانیں ضائع ہوئیں اور لاکھوں بے گھر ہو گئے۔ سیلاب نے ایک طرف ملک کے طول و عرض میں ناقابل تلافی نقصان پہنچایا تو دوسری طرف سول حکومت کے اہلکاروں کی انتظامی صلاحیتوں کو بے نقاب کر دیا۔ مدد کیلئے بے بس لوگوں کی چیخ و پکار اور احتجاجی مظاہرے قیامت کا منظر پیش کر رہے تھے اور میڈیا ان مناظر کی پوری دلسوزی کے ساتھ تصویر کشی کر رہا تھا اس دوران یہ حقیقت دنیا کے سامنے آئی کہ پاک فوج کے اہلکار کسی شور شرابے کے بغیر نہایت خاموشی مگر پوری تندہی سے اس صورتحال کا بڑی پامردی اور پیشہ ورانہ مہارت سے مقابلہ کر رہے ہیں۔ سول اہلکاروں کے مقابلے میں مصیبت زدہ لوگوں کو محفوظ مقامات پر پہنچانے اور ان میں امدادی سامان تقسیم کرنے کے معاملے میں ان کا طریقہ کار بہت شفاف اور اطمینان بخش تھا۔ سیلاب کی تباہ کاریوں پر قابو پانے میں حکومت کی ناقص کارکردگی کی اطلاعات اندرون اور بیرون ملک پھیلیں تو ہر طرف اس کی ساکھ پر انگلیاں اٹھائی جانے لگیں اس کا کردار قابل اعتراض اور متنازعہ ہو گیا جس کی وجہ سے بین الاقوامی امداد سیلاب سے ہونے والی تباہی کے تناسب سے نہیں آ رہی اور اندرون ملک بھی لوگ امدادی سرگرمیوں میں حصہ لینے سے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ اسی کیفیت میں میاں محمد نواز شریف کی طرف سے غیر جانبدار افراد پر مشتمل کمیٹی کی جو تجویز سامنے آئی وہ بھی سیاستدانوں اور حکومت کی کارکردگی پر عدم اعتماد کا واضح اظہار تھا۔ اس سارے پس منظر میں متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین کی طرف سے یہ جملہ سامنے آتا ہے کہ وہ کرپٹ سیاستدانوں کے خلاف مارشل لاء جیسے اقدام کی حمایت کرینگے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ کرپٹ جاگیرداروں سرداروں اور وڈیروں کے خلاف انقلاب فرانس کی طرز کے انقلاب کی ضرورت ہے۔ الطاف حسین کی طرف سے یہ کوئی تعجب کی بات نہیں لگتی لیکن یہ لمحہ فکریہ ہے کہ جس جماعت کی طرف سے ملک میں بہت سے مسائل کو ایجنسیوں کی کارکردگی قرار دیا جاتا تھا وہ اب ملک میں بڑھتی ہوئی بدعنوانی جاگیرداری اور سرداری کے خلاف فوج کی طرف سے کسی اقدام کی حمایت کو تیار ہے تو پوری قوم کو سوچنا چاہئے کہ کیا اب اسکے سوا کوئی اور آپشن نہیں ہے؟اس وقت ملک جن حالات سے دوچار ہے وہ یقینا پوری قوم کیلئے باعث تشویش ہیں مگر تاریخ کے تناظر میں سوچنا ہو گا کہ ماضی میں مارشل لاء لگتے رہے تو کیا واقعی ملک میں کوئی انقلاب آیا؟ عوام کے مسائل حل ہوئے؟ یہ سارے حقائق ہم سب کے سامنے ہیں۔ یہ مارشل لاء ہی تھا جس کے دور میں ملک دولخت ہوا۔ یہ مارشل لا ہی کی حکومتیں تھیں جن کے کئے کی سزا عوام آج بھی بھگت رہے ہیں اور انہیں کوس رہے ہیں۔ اس لئے حکومت یا سیاسی جماعتوں کو آل پارٹیز کانفرنس بلا کر ان تمام مسائل پر غور کرنا چاہئے جو قوم کیلئے سوہان روح بنے ہوئے ہیں یا جن کی ایم کیوایم کے قائد نے نشاندہی کی ہے پھر ملک اور قوم کیلئے جو بھی بہتر راستہ ہو اس پر عمل کیا جائے۔ ہم نہیں سمجھتے کہ اس وقت ملک میں جس طرح کے حالات اور جو چیلنجز ہیں ان کے پیش نظر فوج کا آنا دانشمندی ہے۔ بین الاقوامی طور پر بھی ایسے اقدام کو خوش آمدید نہیں کہا جائیگا کیونکہ بری سے بری جمہوریت بھی آمریت سے بہتر ہوتی ہے۔ اس وقت سیلاب نے تباہی مچا رکھی ہے اور پوری قوم کی توجہ اسی طرف مرکوز ہے۔ ایسی صورتحال میں تمام تر کوششیں انسانی جانیں بچانے کیلئے وقف ہونی چاہئیں اس کے بعد تعمیر نو کا مرحلہ آئیگا سیلاب نے بلاشبہ بہت نقصان پہنچایا ہے مگر ایسا دنیا کی تاریخ میں پہلی بار نہیں ہوا کئی اور جگہوں پر بھی ایسا ہوتا رہا ہے اور حکومتیں عوام کے ساتھ مل کر مشکلات کا مقابلہ کرتی رہی ہیں۔ یہ بھی درست ہے کہ ایسے مواقع پر عوام منتخب حکومت سے جس قسم کی توقعات رکھتے تھے وہ پوری نہیں ہوئیں اس میں کچھ حکمرانوں کا عمل دخل ہے اور کچھ طرز حکمرانی کا بھی۔ گڈ گورننس کسی بھی سطح پر کسی بھی صوبے میں نظر نہیں آ رہی سیالکوٹ میں دو نوجوانوں کے بہیمانہ قتل لاشوں کی بیحرمتی نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ میڈیا اسے بے نقاب نہ کرتا چیف جسٹس ازخود نوٹس نہ لیتے تو علاقے کے منتخب نمائندے پولیس اور صوبائی حکومت تو اسے خاموشی سے دباچکے تھے ۔ لیکن اس حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ 2008کے عام انتخابات میں اس وقت کی سیاسی صورتحال میڈیا کی آزادی اور سترھویں ترمیم کی وجہ سے پوری قوم نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔ جتنی سیاسی جماعتیں اس الیکشن میں کامیاب ہوئیں وہ تقریباً سب کی سب اس وقت وفاقی یا صوبائی حکومتوں میں شامل ہیں۔ ایم کیو ایم سمیت سب اقتدار میں شریک ہیں اگر حکومت ناکام ہے تو یہ ناکامی کسی ایک کی نہیں سب کی ہے۔ انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی مسلم لیگ (ن) ایم کیو ایم جے یو آئی اے این پی مسلم لیگ (فنکشنل) اور بعض دوسری پارٹیوں کے نمائندے عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوئے جن میں سے بیشتر نے بعد میں اقتدار میں شرکت کیلئے آپس میں سیاسی اتحاد قائم کر لئے اب اگر وفاق یا صوبوں میں حکومتیں اتحادیوں کی ہیں تو ان کا فرض ہے کہ سب مل کر عوام کے مسائل حل کریں اور سیلاب کی طرح کا جو بھی چیلنج سامنے آئے ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر اس کا مقابلہ کریں۔ اگر ایسا نہیں ہے تو یہ بھی سیاستدانوں کا ایک دوسرے پر عدم اعتماد کا مظاہرہ ہے۔ ایسی صورت میں مڈٹرم الیکشن کا مطالبہ کیا جاتا ہے جمہوریت کو پٹڑی سے اتارنے کا نہیں۔ مسائل جیسے بھی ہوں انہیں جمہوری انداز میں عوام کے ووٹوں سے منتخب نمائندوں کے ذریعے حل کیا جائے تو یہ حل پائیدار ہو گا اور قابل عمل اور قابل قبول بھی۔ لیکن خود منتخب حکمرانوں اور سیاسی جماعتوں کو بھی دیوار پہ لکھا پڑھنا چاہئے عوام اس وقت تک بدنظمی بدعنوانی ، افراتفری سے تنگ آچکے ہیں۔ اگر حکمرانوں نے اپنا رویہ نہیں بدلا تو تاریخ انہیں تبدیل کرسکتی ہے۔
No comments:
Post a Comment