Wednesday, August 18, 2010
امداد و بحالی کا معیار صرف میرٹ ہونا چاہئے
سید شاہد اکرام سے
اقوام متحدہ کی طرف سے جس سیلاب کو کرہ ارض کی سب سے بڑی ایمرجنسی قرار دیا گیا ہے، اس کے لئے جہاں دنیا بھر کی امداد و اعانت کی ضرورت ہے وہاں اندرون ملک ہر سطح پر بھی سنجیدگی کے ساتھ مربوط و منظم کاوشیں ناگزیر ہیں۔ ماہرین اور سفارت کاروں کے یہ خدشے وزن رکھتے ہیں کہ سیلابی تباہ کاریوں سے پاکستان غیر مستحکم ہوا تو پورے خطے پر اسکے منفی اثرات مرتب ہو نگے۔ ملک کے چاروں صوبے سیلاب کی تباہ کاریوں اور انسانی مصائب کی تصویر بنے ہوئے ہیں جبکہ دریائے سندھ میں نئے ریلے کے باعث مزید آبادی خطرات سے دوچار ہے۔ شہداد کوٹ کے قریب پانی کے دباؤ میں اضافے سے کیر تھر کینال میں نہ صرف شگاف پڑ گیا بلکہ سیلابی ریلا کینال کا رخ بدل کر الٹا بہہ رہا ہے اور اب اس کا رخ ایک بار پھر سکھر کی طرف ہے۔شہداد کوٹ، رتو ڈیرو، قبو سعید خان، سجاول اور میرو خان کو خطرناک قرار دے دیا گیا ہے اور خطرے کے باعث آبادی کی منتقلی شروع ہو چکی ہے۔ بلوچستان کے علاقے جھل مگسی میں ریلے کے خدشے کے پیش نظر فلڈ وارننگ جاری کر دی گئی ہے ۔ تونسہ اور کالا باغ سے دوسرے ریلے کی آمد کے باعث گدو اور سکھر بیراجوں پر منگل کے روز پانی کے بہاؤ میں اضافہ ہو گیا ۔نواب شاہ کے قریب بندوں سے رساؤ کے باعث کئی مقامات پر شگاف پڑنے کا خطرہ ہے۔ اور 48گھنٹے اہم قرار دیئے گئے ہیں۔ کئی دیگر علاقوں میں بھی اسی صورتحال کے باعث متعدد بستیاں زیر آب آنے کے خدشات ہیں۔ پانی میں گھرے ہوئے لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کے لئے ہیلی کاپٹر اور کشتیوں سمیت تمام دستیاب وسائل استعمال کئے جارہے ہیں کھلے آسمان تلے یا کیمپوں میں پڑے ہوئے لوگوں کی بڑی تعداد کو اگرچہ کھانا فوج ، حکومتی ادارے، مخیر افراد یا قریبی بستیوں کے لوگوں کی کوششوں سے کسی نہ کسی طرح مل رہا ہے مگر پینے کے پانی کی کمیابی سمیت ناقابل بیان مصائب کا سامنا ہے۔ ایک جانب ملک بھر میں تیل کی ترسیل متاثر ہونے سے امدادی کاموں سمیت بہت سے معاملات متاثر ہو رہے ہیں۔ تو دوسری طرف فصلوں کی تباہی سے غذائی اشیاء کی سنگین قلت کے خدشات ہیں۔ گلگت ، بلتستان ،خیبر پختونخواہ کے دور دراز علاقوں اور کئی دوسرے مقامات پر سیلاب میں گھرے ہوئے لوگوں کو کھانے پینے کی اشیاء کی فراہمی میں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ صورتحال ایسی ہے کہ وزیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ کے مطابق ”منصوبوں، اعداد و شمار، اور پراجیکٹس کا پورا منظر بدل چکا ہے “ انفرا اسٹرکچرز ،سڑکیں، پل، اسکول، اور فصلیں تباہ ہونے کے بعد فلڈ سرچارج عائد کرنے پر غور کیا جا رہا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ نئے منظر نامے میں سخت معاشی فیصلے ناگزیر ہو چکے ہیں مگر ان کا ہدف وہ غریب عوام نہیں ہونے چاہئیں جن کے لئے بجلی، پانی، گیس، پیٹرول، اور دوسری اشیاء کی گرانی نے بیروزگاری کے ساتھ مل کر پہلے ہی زندگی عذاب بنا کر رکھ دی ہے۔ اب وزراء ، ارکان اسمبلی اور اعلیٰ حکام سے تنخواہوں ،مراعات اور دوسرے اخراجات میں کمی سمیت قربانیاں طلب کی جانی چاہئیں۔ اشرافیہ کا معیار زندگی کم کرکے فاضل دولت قومی ضروریات کیلئے حاصل کرنے کی تدابیر کی جانی چاہئیں، جاگیروں اور زمینوں کی حد مقرر کر کے فاضل اراضی کسانوں میں تقسیم کی جانی چاہئے ، کچے کے علاقے سمیت ہر اس جگہ کو بازیاب کرانے کی ضرورت ہے جہاں بااثر لوگوں نے شکار گاہیں، کیٹیاں اور اپنے اطاعت گزار ڈاکوؤں کے اڈے قائم کر رکھے ہیں۔ بارش اور سیلاب کے بہاؤ میں رکاوٹ بننے والی تجاوزات کو ختم کیا جانا چاہئے تاکہ مستقبل میں بستیوں کو تباہی سے دوچار نہ ہونا پڑے۔کرپشن کے جس سیلاب نے ملکی معیشت کو ڈبونے کے بعد اب ملک کے بڑے حصے کو پانی میں ڈبو دیا ہے، اس پر بند باندھنے کے لئے سزائے موت سمیت ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔ سفارش اور سیاسی وفاداریوں کی بنیاد پر تقرریوں کے کلچر کی بھی بیخ کنی کی جانی چاہئے۔وفاقی بورڈ آف ریونیو کے ذرائع کا اندازہ ہے کہ سیلاب سے کاروبار پر پڑنے والے اثرات کے باعث محصولات میں چار تا 5ارب روپے یومیہ کی اور 30 تا 35ارب روپے فی ہفتہ کمی ہو رہی ہے۔ یہ نقصان فصلوں ،جائیدادوں اور انفرا اسٹرکچر کے زیاں کے علاوہ ہے۔ گیہوں کے ذخائر ، جانوروں، مواصلاتی نظام اور برآمدات پر مرتب ہونے والے نقصانات اس کے علاوہ ہیں۔ یہ صورتحال اس بات کی متقاضی ہے کہ سیلاب کی صورت میں آنے والی موجودہ آفت کو ایک بہتر پاکستان تعمیر کرنے کے موقع میں تبدیل کرنے کے لئے سب ہی مل کر کام کریں۔ اگرچہ مخیر حضرات کی طرف سے اپنے طور پر کیمپوں میں کھانا اور دوسری سہولتیں فراہم کی جا رہی ہیں مگر ان میں وہ ربط اور ہم آہنگی نہیں ہے جو کسی منظم ادارے کی منصوبہ بندی کے نتیجے میں نظر آنی چاہئے۔ وزیر اعظم گیلانی اور مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف نے بحالی و امداد کے کاموں کے لئے جس مشترکہ کمیشن کے قیام پر اتفاق کیا تھا، اسکا تاحال کوئی پتہ نہیں۔ مختلف اداروں میں اعتماد اور رابطے کا فقدان بھی امدادی کاموں میں تاخیر کا سبب بن رہا ہے۔امداد،بحالی اور تعمیر نو درحقیقت ضلعی حکومت کی ذمہ داری ہے جسے صوبے کی سطح پر اہمیت دی جانی چاہئے ۔جبکہ وفاق کو صوبے کی ضروریات مدنظر رکھتے ہوئے ان میں مدد دینی چاہئے۔ اسطرح مربوط انداز میں کام ہو تو بہتر نتائج کی توقع کی جا سکتی ہے۔ ہم بار بار ماہرین، محققین، سرکاری افسروں اور سیاست دانوں پر مشتمل ٹاسک فورس کے قیام کی جو تجویز پیش کرتے رہے ہیں اس پر عمل کر لیا جاتا تو میرٹ، شفافیت اور خالص فنی بنیادوں پر بعض فیصلے کر کے تباہی کا حجم کم کیا جا سکتا تھا۔ صدر زرداری نے نوجوانوں، صنعت کاروں، اساتذہ، سیاسی کارکنوں ،میڈیکل طلبہ ،لیڈی ہیلتھ ورکرز کو حرکت میں لا کر دوست ملکوں کے تعاون سے تعمیر نو کا جو تین سالہ پلان پیش کیا ہے، اسے عملی شکل دینے کے لئے تادم تحریر قواعد وضوابط اور طریق کار کی صورت میں کوئی نظام سامنے نہیں آ سکا۔ تاکہ جن بااثر افراد پر اپنی زمینیں بچانے کے لئے وسیع علاقے ڈبونے کا الزام ہے، ان کے متعلق تعمیراتی کاموں کے دوران بھی ایسی ہی باتیں سننے میں نہ آئیں۔ ایسا نہ ہو کہ جس علاقے میں کوئی بااثر فرد رہائش پذیر نہ ہو اسے نظر انداز کر دیا جائے۔ یہ سب کے امتحان کا وقت ہے ۔نااہلیوں اور ناانصافیوں کے باعث جو عذاب الہٰی ہم پر نازل ہو چکا ہے، اس سے نجات کے لئے سفارش ، رشوت اور اقربا پروری کی بجائے صرف میرٹ کا راستہ اختیار کرنا ہو گا۔
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment