امداد کا شفاف استعمال۔قوم کو اعتماد میں لیں
سید شاہد اکرام سے
اب خوفناک سیلاب سوات سے پورے ملک میں تباہی مچاتا ہوا آخری مرحلہ میں ہے۔ بربادیوں، نقصانات میں اضافہ ہورہا ہے لیکن یہ امر بہرحال باعث اطمینان ہے کہ پاکستان میں سیلاب اور بارشوں کی تباہ کاریوں سے متاثر ہونے والے کروڑوں افراد کی امداد،بحالی اور متاثرہ علاقوں کی تعمیر نو کے لئے جمعہ کے روز بھی جہاں ملکی سطح پر صنعتکاروں ،تاجروں اور مخیر حضرات کی طرف سے نقد رقوم اور امدادی سامان کی فراہمی جاری رہی وہاں عالمی برادری نے بھی متاثرین کی مشکلات کا احساس کرتے ہوئے مزید امداداعلانات کئے۔ پاکستان نے بھارت کی طرف سے 50 لاکھ ڈالر کی امداد قبول کرلی جبکہ عالمی بنک نے 90 کروڑ ڈالر کے قرضے کو ایک ارب ڈالر تک بڑھادیا ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے بعد عالمی برادری کی طرف سے20کروڑ ڈالر کی امداد کا اعلان کیا گیا ہے۔جاپان نے6ہیلی کاپٹر اور 300 فوجی فوری طور پر پاکستان بھیجنے کااعلان کیا ہے۔ برطانیہ نے اعلان شدہ امداد دگنی کرنے کے علاوہ مزید 33 ملینپاؤنڈ، بحرین نے 3ملین دینار کے علاوہ اشیائے خورونوش، امریکہ نے متاثرہ علاقوں میں صاف پانی کی فراہمی کے لئے مزید 40 طبی مراکز قائم کرنے کے لئے عالمی ادارہ صحت کو1.5ملین اضافی ڈالرز فراہم کردئیے ہیں۔ سعودی عرب کے شہزادہ ولید بن طلال فاؤنڈیشن کی طرف سے 10 ملین ریال ،عوامی جمہوریہ چین نے مزید5کروڑ یوآن اور متاثرین کے لئے مزید ایک ہزار خیمے بھجوائے ہیں ۔ عالمی ادارہ خوراک نے36.66میٹرک ٹن غذائی اجناس ،ازبکستان نے3لاکھ ڈالرز کے علاوہ خوراک اور ادویات کی فراہمی سے بھی حکومت کو آگاہ کردیا ہے۔ بعض اخباری اطلاعات کے مطابق امریکی یہودیوں نے بھی پاکستانی متاثرین کے لئے عطیات جمع کرنے کی مہم شروع کردی ہے۔ یہودی تنظیمیں امریکہ اور ترکی کے راستے سیلاب زدگان کے لئے فنڈز جمع کرکے بھجوارہی ہیں۔ یروشلم پوسٹ کے مطابق امریکی جیوش ڈسٹری بیوشن کمپنی اور کئی دوسرے اداروں نے ترکی کی بلیو کریسنٹ نامی تنظیم کے ذریعے امدادی رقم اور اشیاء بھیجنے کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔ سٹیٹ بنک آف پاکستان نے بھی متاثرہ علاقوں میں معاشی سرگرمیوں کی بحالی اور چھوٹے کاروبار کے لئے رعایتی شرح پر سکیمیں شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ملک بھر کے ادیبوں، شاعروں اور فنکاروں نے بھی تحریک امداد سیلاب زدگان چلانے کا اعلان کیا ہے۔ مذہبی و سیاسی جماعتوں ،نجی و سرکاری فلاحی اداروں، صنعتکاروں، تاجروں اور مخیر حضرات کی طرف سے بھی عطیات دئیے جارہے ہیں۔اگرچہ عالمی برادری اور خود پاکستان کی اکثر فلاحی تنظیموں کو بھی بہت تاخیر کے بعد سیلاب کی تباہ کاریوں کی شدت کا احساس ہوا ہے اب وہ جان گئی ہے کہ قیامت خیز طوفان اور سیلاب کی تباہ کاریاں ہماری قومی ساکھ سے کہیں زیادہ ہیں اور اس صورتحال کے حوالے سے عالمی سطح پر شعور و آگاہی کے فقدان نے اعتراضات کی ایک بوچھاڑ کاموقع فراہم کردیا۔ عالمی برادری سیلاب کی تباہ کاریوں اور ان کی شدت سے آگاہ نہ ہونے کے باعث امداد کی ضرورت و اہمیت کا اندازہ نہ لگا سکی، یہاں تک کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے دورہ پاکستان اور بعض غیر ملکی سفیروں کے متاثرہ علاقوں کے دوروں اور جنرل اسمبلی سے سیکرٹری جنرل کے خطاب نے عالمی برادری کو متاثرین کی تعداد اور قومی و نجی املاک کی تباہی سے اس موٴثر انداز میں آگاہ کیا کہ عالمی سطح پر امداد کی فراہمی کا عمل تیز ہوگیا۔ صدر آصف علی زرداری نے تاجروں، صنعتکاروں اور مخیر حضرات سے سیلاب زدگان کی بحالی اور ان کی امداد کے لئے اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان تباہ کاریوں سے نمٹنا محض حکومت کے بس کا روگ نہیں۔ وزیر اعلیٰ پنجاب نے بھی عالمی برادری سے مدد کی اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت اس تباہی کا تنہا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ ہم اس مرحلے پر ماضی کے بعض تلخ تجربات کی بنیاد پر حکومت اور تمام سرکاری اداروں سے یہ اپیل کریں گے کہ عالمی برادری بالخصوص امریکہ اقوام متحدہ اور ملکی و غیر ملکی اداروں کی طرف سے جن بنیادی مقاصد کے لئے امداد فراہم کی جارہی ہے تمام امدادی رقوم انہی مقاصد کے لئے استعمال کی جائیں اور امداد کے تمام مرحلوں کو صاف و شفاف بنانے کے ساتھ ساتھ ان کی موٴثر مانیٹرنگ کا بھی اہتمام کیا جائے۔ جہاں تک متاثرین کی امداد اور بحالی کے لئے ایک کمیشن کے قیام کے مطالبے کا تعلق ہے تو اس کی جگہ صدر اور وزیر اعظم کی باہمی مشاورت سے جو کونسل قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کی رکنیت کے لئے چاروں صوبوں سے وسیع تر مشاورت کے علاوہ تاجروں، صنعتکاروں ، تمام مذہبی و سیاسی جماعتوں کے قائدین ، نجی اور سرکاری فلاحی اداروں کے سربراہوں سے وزیر اعظم ملاقات کرکے انہیں کونسل کے قیام اور متاثرین کی امداد، بحالی اور متاثرہ علاقوں کی تعمیر نو کے لائحہ عمل سے آگاہ کریں تاکہ کوئی غلط فہمی پیدانہ ہونے پائے ۔ وزیر اعظم وسیع تر مشاورت کے دوران تمام شرکاء کو کھل کراظہار خیال کا موقع دیں، ان کے اعتراضات دور کریں اور مفید مشوروں اور تجاویز کو لائحہ عمل کاحصہ بنائیں کیونکہ یہ نازک لمحات وسیع تر قومی اتحاد اور یکجہتی کا تقاضا کرتے ہیں اور ہم قومی سطح پر متحدہو کر ہی صورتحال کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔ سیلاب ز دگان میں تمام مذہبی و سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے افراد شامل ہیں اسی لئے سب جماعتیں اپنے متاثرین کی آبادکاری میں کوشاں ہیں لہٰذا ان تمام کوششوں کو تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں سے مشاورت کے بعد ہم آہنگ کیا جاسکتا ہے۔صدر آصف علی زرداری نے2008ء کے انتخابات کے بعد جس قومی مفاہمت کا آغاز کیا تھا اور اس کی ضرورت کا احساس دلایا تھا، وسیع تر ملکی مفادات میں اس کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔ متاثرین کے لئے استعمال ہونے والی امدادی رقوم اور اشیائے ضرورت کا ایک ایسا سٹرکچر معرض وجود میں لایا جانا ضروری ہے کہ وفاقی صوبائی اور ضلعی سطح پر بھی اس کے استعمال سے تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کے قائدین کو اس سے آگاہ کیا جائے۔ ہماری تمام سیاسی جماعتوں سے اپیل ہے کہ وہ اس مقصد کے لئے حکومت کی طرف سے مشاورت کے لئے بلائی جانے والی میٹنگز میں ضرور شریک ہوں اور میڈیا پر وہ جن خیالات کا اظہار کررہی ہیں وہ خیالات و نظریات مثبت تجاویز کی شکل میں صدر اور وزیر اعظم کے سامنے رکھیں۔ حکومت کو بھی چاہئے کہ عالمی برادری اور اندرون ملک سے جو امداد مل رہی ہے اس کی تفصیلات کا اعلان کرنے کے علاوہ اس کی تقسیم کا روزانہ باضابطہ اعلان کرے۔ جہاں جہاں یہ امداد خرچ کی جارہی ہے ان تمام حلقوں سے پوری قوم کو آگاہ کیا جائے اور ہمار ا جناب صدر کے لئے یہ صائب مشورہ بھی ہے کہ وہ چند روز کے اندر اندر قوم سے خطاب کرکے اسے ملکی و غیر ملکی امداد کی تفصیلا ت اور اس کی تقسیم اور استعمال کے طریق کار اور لائحہ عمل سے آگاہ کریں۔ وہ ادارے جو نجی سطح پر عطیات جمع کرنے اور براہ راست متاثرین میں تقسیم کرنے میں مصروف ہیں انہیں بھی چاہئے کہ وہ اپنی سرگرمیوں کی تفصیلات کو منظر عام پر لائیں تاکہ کوئی بھی یہ جواز نہ دے سکے کہ فنڈز کے صحیح استعمال کا یقین نہیں تھا اس لئے حکومت کو امداد نہیں دی۔ہم عالمی برادری اور پاکستانی اداروں، تاجروں، صنعتکاروں اور امداد فراہم کرنے والے مخیر حضرت کو اس طوفان بلاخیز کی تبا ہ کاریوں سے پھر ایک مرتبہ آگاہ کرتے ہوئے یہ بتانا ضروری سمجھتے ہیں کہ سوات سے ٹھٹھہ تک دو کروڑ سے زائد ا فراد اس کی لپیٹ میں آچکے ہیں ۔ صرف پنجاب میں دو لاکھ سے زائد مویشی ہلاک ہوگئے۔ ملک کا25 فیصد سے زائد حصہ سیلاب میں غرق ہوچکا ہے۔80فیصد پل اور سڑکیں تباہ ہوگئیں اور لاکھوں دیہات اور بستیاں صفحہ ہستی سے مٹ گئیں۔ جعفر آباد میں بیسوں بستیاں تباہ ہوگئیں، کوٹ سبزل میں شاہراہ بہہ جانے سے50ہزار گاڑیاں پھنسی ہوئی ہیں۔ ہزاروں نہیں لاکھوں متاثرین گیسٹرو، ہیضہ اور دیگر وبائی امراض کا شکار اور طبی سہولتوں سے محروم ہیں۔ کوٹری بیراج میں پانی کا بڑا ریلا داخل ہونے سے اسے شدید خطرات لاحق ہیں۔ لاکھوں ایکڑ اراضی پر فصلوں کی تباہی سے زرعی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے جس کے بطن سے گرانی کا ایک نیا طوفان جنم لے گا۔ عام شہروں میں اس تباہی کا تصور بھی امر محال ہے لہٰذا قوم کو احساس کرنا چاہئے کہ جن کا سب کچھ مٹ گیا ان کی دامے درمے سخنے بھرپور مدد کی جائے۔ ہم پرامن بستیوں اور شہروں میں رہنے والے عید کی خریداری میں مصروف متاثرین کی محرومیوں اور مایوسیوں کا اگر اندازہ نہ لگا پائے اور ان کی امداد کے لئے آگے نہ بڑھے تو تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔
good
ReplyDelete