Friday, August 20, 2010
مصیبت زدگان کی مدد۔اتحاد اور تنظیم کی ضرورت
تحریرسید شاہد اکرام
بدنظمی ، افراتفری، ہنگامہ، سیلاب اور طوفان کا تو لازمی جزو ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی اشرف المخلوقات انسان کو تو اس سے گریز کرنا چاہئے۔ ملکی تاریخ کا بد ترین سیلاب اپنے ساتھ تباہ کاریاں اور مشکلات تو لا یا ہی ہے مگر کئی سرکاری محکموں کی کارکردگی کی خود ساختہ رپورٹوں کو دفتر بے معنی بنا کر بہا لے گیا۔ حکمرانوں، سیاسی جماعتوں اور اور دن رات قومی خدمت کا راگ الاپنے والوں کے چہروں کا ملمع بھی ساتھ لے گیا۔ کھلے آسمان تلے امداد کے منتظر لوگ اور کیمپوں میں بھوک اور بیماریوں کے شکار مرد، عورتیں بچے، بوڑھے ایسے سنگین حالات میں بھی سرکاری اداروں کی روایتی نا اہلی دیکھ رہے ہیں اورسیاسی پارٹیوں کے خالی خولی بیانات سن رہے ہیں ۔اس بدنظمی اور افراتفری کے تجربے سے گزر رہے ہیں جس نے ان کے مصائب کی سنگینی کئی گنا بڑھا دی ہے۔ اپنے گھر بار، مال مویشی اور ضروری سہولتوں سے محروم بے گھر اور بے در افراد میں سے بہت سے لوگ کسی نہ کسی سیاسی جماعت سے وابستگی رکھتے ہیں۔ وہ منتظر ہیں کہ جن لیڈروں کے استقبال کے لئے وہ دن دن بھر دھوپ میں کھڑے ہو کر پر جوش نعرے لگاتے رہے، ان کی طرف سے اس کڑے وقت میں کیا مدد آتی ہے؟ ان کے ساتھی سیاسی کارکن ان کے مصائب کم کرنے کے لئے کب حرکت میں آتے ہیں؟ ان کی پارٹیوں کی مجالس عاملہ، مرکزی کمیٹی یا اعلیٰ قیادت کی سطح پر ان غریبوں اور مصیبت کے ماروں کی مدد کے لئے کیا لائحہ عمل بنایا جا تا ہے جن کی حالت بہتر بنانے کے منشوروں کے ساتھ ہر بڑی پارٹی اس وقت وفاق یا صوبوں میں حکومتوں کا حصہ ہے؟
عوام کو تحفظ فراہم کرنا، ان کی بنیادی ضروریات پوری کرنا، ان کی حالت میں بہتری لانا اور ایمرجنسی میں انہیں فوری مدد فراہم کرنا حکومتوں کی وہ ذمہ داری ہے جس کا فقدان عملداری پر سوالیہ نشان ثبت کرنے کا باعث بنتا ہے۔ انسانوں کے ہجوم کو ایک نظم، تربیت اور ڈسپلن میں رکھنے کے لئے ادارے بنائے جاتے ہیں جو تربیت، وسائل اور ضروری آلات سے لیس ہو کر اپنے اپنے دائروں میں ہر صورتحال سے نمٹنے کے لئے مستعد و تیار رہتے ہیں۔ کسی آفت کے سر پر آنے کے بعد کوئی ادارہ بنانے یا وفاقی یا صوبائی سطح پر نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی تشکیل دینے کا مطلب اس کے سوا کیا ہوسکتا ہے کہ ہم اب تک کسی انہونی کے امکانات سے غافل ہو کر سوئے پڑے تھے۔ پچھلے کئی ہفتوں کے دوران خیبر پختونخوا، بلوچستان اور پنجاب میں بارشوں اور سیلابی ریلوں سے متعدد بستیوں کے نشانات مٹنے، دو کروڑ کے لگ بھگ لوگوں کے اپنے کل سرمائے سے محروم ہونے، بڑی تعداد میں عورتوں بچوں اور بوڑھوں کے کھلے آسمان تلے آجانے، لاکھوں افراد کے مختلف امراض میں مبتلا ہونے اور سیکڑوں کے جاں بحق یا گمشدہ ہونے کے بعد اس بات کی ضرور بڑھ گئی تھی کہ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کو زیادہ سرگرم و فعال بنانے کی تدابیر کی جاتیں۔ اس ضمن میں جمعرات کو وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی زیر صدارت چاروں وزرائے اعلیٰ سمیت اعلیٰ شخصیات کے اجلاس نے یقیناً تمام پہلوؤں کا جائزہ لیا ہوگا جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ سرکاری محکموں اور اداروں کی کمزوری مسائل کو سنگین بنا رہی ہے۔افسوس ناک بات یہ ہے کہ ہم دنیا بھر سے بلا تاخیر امداد کے اپیلیں کرتے رہے مگر اندرون ملک ایسی مشینری نہ بنا سکے جو امدادی کاموں میں ربط اور تنظیم پیدا کرسکے۔ اس وقت مختلف مقامات پر فوجی جوان کام کررہے ہیں۔ جن کو ایسے معاملات کی تربیت بھی حاصل ہے اور ان کے کاموں میں ڈسپلن بھی ہے۔ اس وجہ سے ایسے مقامات پر ریسکیو، ریلیف اور خوراک کی فراہمی کے کام سے عام لوگ بڑی حد تک مطمئن نظر آئے۔ غیر ملکی اداروں اور این جی اوز کا کام بھی ان کے تربیت یافتہ اورمنظم ہونے کی وجہ سے تسلی بخش محسوس ہوا۔ مگر بہت سے مقامات پر مخیر حضرات، این جی اوز اور رضا کارانہ خدمات کے لئے پہنچنے والوں کے کاموں میں ربط نہ ہونے کے باعث افراتفری نظر آئی۔ واضح طور پر محسوس کیا گیا کہ حکومت کی قائم کردہ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کی طرف سے ملک گیر سطح پر افرادی قوت منظم کرنے کے باب میں کوئی کام نہیں ہوا۔ 2005ء کے زلزلے کے وقت ایک رضا کار فورس بنائی گئی تھی۔ اسے تربیت بھی دی گئی تھی۔ مگر اس سے فائدہ اٹھانے کے سلسلے میں کچھ نہیں کیا گیا۔ ترقی یافتہ ملکوں میں سرکاری سطح پر ایسی تربیت یافتہ فورسز موجود ہوتی ہیں جو ہنگامی حالات میں فوری طور پر متحرک ہو کر نقصانات میں کمی کا سبب بنتی ہیں۔ سیاسی پارٹیاں بھی کارکنوں کو مصائب میں گھرے ہوئے لوگوں کو مدد پہنچانے کی تربیت دیتی ہیں مگر وطن عزیز میں شاید یہ تربیت زندہ باد اور مردہ باد کے نعروں تک محدود ہے۔ اس سے سیاسی پارٹیوں کی تنظیم میں کمی ظاہر ہوتی ہے افسوسناک بات یہ ہے کہ سیاسی پارٹیوں کے ارکان قومی و صوبائی اسمبلی اور کارکن متاثرین کے کیمپوں میں کام کرتے نظر نہیں آئے۔ ان کے دورے فوٹو سیشن تک محدود رہے یا ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی ہوتی رہی جس سے متاثرین کی فکر مندی میں اضافہ ہوا۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ کسی سیاسی پارٹی نے اپنی مجلس عاملہ یا مرکزی کمیٹی میں تمام علاقوں کے نمائندوں کو جمع کرکے حالات میں جلد بہتری لانے کی تدابیر پر غور تک کرنا ضروری نہیں سمجھا۔ بڑی جماعتوں کو اس وقت اپنی کارکردگی، استعداد اور مثالی کام کا جو موقع حاصل ہے اس کا اظہار چارو ں صوبوں اور مرکز کی حکومت میں شامل اتحادیوں کے طرز عمل سے نہیں ہوا۔
اس وقت کیمپوں میں جو لوگ موجود ہیں یا جنہیں لایا جانا ہے، ان کی امداد کیلئے سامنے آنے والے افراد اور تنظیموں کواس رہنمائی کی ضرورت ہے کہ کن دور دراز علاقوں میں ابھی تک ضروری اشیا نہیں پہنچیں۔ کن مقامات پر مچھروں کی بہتات کے پیش نظر ہلکی چادریں فراہم کرکے ملیریا کا خطرہ کم کیا جاسکتا ہے۔ کونسی حفاظتی دوائیں کہاں درکار ہیں۔ پینے کا صاف پانی کتنی کتنی مقدار میں کہاں کہاں پہنچانا ہے۔ کھانے پینے کی خشک اشیا کن مقامات پر پہنچانی ہونگی۔ اس رہنمائی، ربط اور تنظیم کے ذریعے امدادی اشیا ضرورت کے مطابق متعلقہ علاقوں تک پہنچائی جاسکتی ہیں۔ اور ان کے زیاں سے بچا جاسکتا ہے۔ دوسرا مرحلہ مقامی سطح پر فلڈ وارننگ سسٹم کی تنصیب اور ناگہانی آفات میں فوری طور پر سرگرم ہونے والی ٹیموں کے تیاری ہے۔ اس کے لئے مقامی حکومتوں کو جلد بحال کرنے کی تدابیر ضروری ہیں کیونکہ ان کے لئے عام لوگوں سے رابطہ کرنا آسان ہوتا ہے۔ تربیت یافتہ سیاسی کارکن بھی اس معاملے میں مدد گار ثابت ہوسکتے ہیں۔ سیلابی پانی کے اترنے کے بعد لوگوں کو خود کھانا پکانے کے لئے ضروری چیزیں مہیا کرنا ہونگی تاکہ وہ اپنی مرضی کے مطابق کھانا تیار کرسکیں۔ تیسرا مرحلہ ان کی بحالی و آباد کاری اور تعمیر نو کا ہے۔ ان سب میں ہی امدادی کاموں کو ایک ڈسپلن میں لانے، مربوط رکھنے اور تمام سیاسی و سماجی حلقوں کے مل جل کر کام کرنے کی ضرورت ہوگی
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment