Monday, August 16, 2010

امدادی سرگرمیوں اور تعمیرنو کے لئے ایکشن پلان کی ضرورت

امدادی سرگرمیوں اور تعمیرنو کے لئے ایکشن پلان کی ضرورت



تحریر سید شاہد اکرام

پاکستان میں تاریخ کے بدترین سیلاب سے دوہزار سے زائد افراد ہلاک، لاکھوں خاندان بے گھر اور اربوں روپے کی کھڑی فصلیں اور دوسری املاک تباہ ہو گئی ہیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ تباہ کاریوں کا یہ سلسلہ ابھی رکا نہیں، طوفان کی طرح بڑھتے ہوئے سیلابی ریلے نے جنوبی پنجاب، سندھ اور بلوچستان کے مزید علاقوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے جس سے دوسرے نقصانات کے علاوہ سینکڑوں مکانات منہدم اور لاکھوں افراد محفوظ مقامات کی جانب نقل مکانی پر مجبور ہوگئے ہیں۔ پاکستان نے مصیبت زدگان کی امداد اور بحالی کے کاموں میں ہاتھ بٹانے کے لئے عالمی برادری کی توجہ دلائی تھی جس کا مثبت ردعمل سامنے آیا ہے۔ اتوار کو اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون ہنگامی دورے پر پاکستان پہنچے۔ انہوں نے صدر آصف علی زرداری کے ہمراہ جنوبی پنجاب میں سیلاب کی تباہ کاریوں سے دوچار اضلاع مظفرگڑھ، لیہ، میانوالی، راجن پور، ڈیرہ غازی خان، تونسہ شریف اور دوسرے علاقوں کا فضائی جائزہ لیا۔ انہوں نے مظفرگڑھ میں ایک ریلیف کیمپ کا بھی دورہ کیا، متاثرین سے ملے اور ان میں امدادی اشیا تقسیم کیں۔ بعد میں چکلالہ ایئربیس پر صدرزرداری کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے پاکستان میں تباہ کن سیلاب سے متاثر ہونے والے لوگوں کی حالت زار پر دکھ کا اظہار کیا اور کہا کہ دنیا میں اتنی بڑی تباہی انہوں نے اس سے پہلے کہیں نہیں دیکھی۔ انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ سیلاب کے متاثرین کی ممکنہ تعداد دوکروڑ تک پہنچ سکتی ہے۔ گویا تقریباً ہردسواں پاکستانی براہ راست یا بالواسطہ طور پر سیلاب سے متاثر ہوا ہے۔ انہوں نے عالمی برادری سے مصیبت زدگان کے لئے 459ملین ڈالر کی فوری امداد کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ سیلاب سے بے مثال تباہی ہوئی ہے اس لئے امداد بھی بے مثال ہونی چاہئے۔ سیکرٹری جنرل نے عالمی ادارے کی طرف سے مزید ایک کروڑ ڈالر کی ہنگامی امداد کے علاوہ 60لاکھ افراد کے لئے پینے کے صاف پانی اور ایک کروڑ 40لاکھ متاثرین کے لئے ایمرجنسی ہیلتھ کیئر کی سہولت کا بھی اعلان کیا۔ صدر آصف علی زرداری نے سیکرٹری جنرل کو سیلاب کی تباہ کاریوں کی تفصیلات سے آگاہ کیا اور بتایا کہ مجموعی طور پر ملک کے 71اضلاع سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں۔ ان میں خیبرپختونخوا کے 24، سندھ کے 19، پنجاب کے 8، آزاد جموں و کشمیر کے 7، گلگت بلتستان کے 7 اور بلوچستان کے 6اضلاع شامل ہیں۔ صدر نے کہا کہ چیلنج اتنا بڑا ہے کہ حکومت یا کوئی بھی پارٹی تنہا اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ پاکستانی عوام، تارکین وطن، امدادی اداروں اور عالمی برادری کے تعاون سے ہی صورتحال بہتر ہوسکتی ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل سے وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے بھی ملاقات کی اور دوسری باتوں کے علاوہ ان سے متاثرین کے لئے خیموں، خوراک، صاف پانی اور ادویات کی فراہمی پر تبادلہ خیال کیا۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے مشکل کی اس گھڑی میں پاکستان کا ہنگامی دورہ کرکے اور عالمی برادری سے متاثرین کے لئے فراخ دلانہ امداد کی اپیل کر کے پاکستانی عوام سے یکجہتی کا جو مظاہرہ کیاہے وہ قابل تحسین ہے۔ دنیا کے بیشتر ممالک پہلے ہی سیلاب زدگان کی امداد کے لئے پاکستان کو ہرممکن تعاون کا یقین دلا چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے 90روز کے اندر ہنگامی امداد کی باقاعدہ اپیل کر کے عالمی برادری کو صورتحال کی سنگینی کا احساس دلایا ہے۔ توقع ہے کہ اقوام متحدہ کے تمام رکن ممالک اس اپیل پر پاکستان کی مدد کے لئے آگے بڑھیں گے اور متاثرین کی بحالی اور تعمیرنو کے عمل میں بھرپور حصہ لیں گے۔ سیکرٹری جنرل نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ 19اگست کو جنرل اسمبلی میں پاکستان کے نقصانات کی رپورٹ پیش کریں گے۔ اس کے علاوہ عالمی سطح کے بعض اہم اجلاسوں میں بھی پاکستان کے لئے مزید امداد کی سفارش کریں گے۔اقوام متحدہ اور بین الاقوامی برادری کی طرف سے سیلاب زدگان کی امداد کے لئے یہ جوش و جذبہ خوش آئند ہے لیکن حکومت پاکستان کو ایک ایسا ایکشن پلان تیار کرنا پڑے گا جس میں بیرونی امداد کے حصول، استعمال اور مستحقین تک اسے پہنچانے کا لائحہ عمل پوری طرح واضح ہو۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے ترجیحات کا تعین کرنا ہو گا اور امداد دینے والے ممالک اور اداروں کو بتانا پڑے گا کہ پاکستان کو کس کس چیز کی ترجیحی بنیادوں پر ضرورت ہے۔ اس مقصد کے لئے ماہرین کی بااختیار کمیٹی قائم کی جانی چاہئے۔ ایکشن پلان سے عالمی برادری کو متحرک کرنے میں مدد ملے گی۔پلان نہ ہونے کی وجہ سے ہی بین الاقوامی امداد ملنے میں اب تک تاخیر ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی اور میاں محمد نوازشریف کے درمیان جس متفقہ کمیشن کے قیام کا فیصلہ ہوا تھا اسے بھی جلد ازجلد وجود میں لانا ہوگا تاکہ امدادی سرگرمیوں کو شکوک و شبہات سے پاک رکھا جاسکے۔ ایکشن پلان میں حکومت کو ضلعی افسروں (ڈی سی اوز) کی مدد کا طریق کار بھی مرتب کرنا ہوگا۔ اس وقت جو امدادی کام ہو رہے ہیں ان میں متاثرہ علاقے کے ایم این اے اور ایم پی اے کے عمل دخل اور مداخلت بے جا کی شکایات عام ہیں۔ یہ شکایات دور کرنے کے لئے ایم این اے اور ایم پی اے کا دائرہ کار واضح کرنا ہو گا تاکہ ڈی سی اوز اور سرکاری مشینری شفاف طریقے سے آزادانہ اپنا کام کرسکے۔ اس سے حکومتی ساکھ بڑھے گی اور امداد دینے والے اداروں کا اعتماد بحال ہوگا۔ امدادی سرگرمیوں کے بعد متاثرین کی بحالی اور تعمیرنو کا عمل شروع ہوگا۔ اس کے لئے ایک الگ پلان کی ضرورت ہوگی جسے باہر کے لوگ بھی غور سے دیکھیں گے۔ انہیں یقین دلانا ہوگا کہ ہمارا تعمیرنو کا پلان ہرقسم کی کرپشن، بدعنوانیوں اور بے قاعدگیوں سے پاک ہے اور ان کی دی ہوئی امداد صحیح اور جائز مقاصد کے لئے استعمال ہورہی ہے۔ تعمیرنو کا یہ ایکشن پلان اس نوعیت کی آفات سے نمٹنے کے لئے مستقبل میں بھی کام آئے گا۔متاثرین سیلاب کے لئے اقوام متحدہ کے علاوہ دوسرے عالمی ادارے بھی سرگرم عمل ہیں۔ اس حوالے سے عالمی بنک نے ایک ڈونرز ٹرسٹ فنڈ قائم کر دیا ہے جو خوش آئند ہے۔اس فنڈ کا انتظام عالمی بنک خود کرے گا۔ اندرون ملک پاک فوج سمیت کئی اداروں نے خصوصی بینک اکاؤنٹ کھولے ہیں جن میں اہل ثروت عطیات جمع کرا رہے ہیں۔ علمائے کرام نے بھی فتویٰ دیا ہے کہ جو لوگ عمرے کی سعادت حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ عمرے کی رقم متاثرین کے لئے دے دیں یہ افضل عمل ہے۔ کیونکہ اسلام کسی کی جان بچانے کو فوقیت دیتا ہے۔ توقع ہے کہ سیلاب زدگان کے لئے اندرون ملک جمع ہونے والے اس طرح کے عطیات سے امدادی سرگرمیوں کو تیز کرنے میں مدد ملے گی بشرطیکہ اس سارے عمل کو شکوک وشبہات کی نذر نہ ہونے دیاجائے۔ بلوچستان میں 16/افراد کا قتل!کوئٹہ اور مچھ کے علاقوں میں دو وارداتوں میں 16/افراد کو باقاعدہ شناخت کے بعد قتل کردیا گیا۔ بلوچستان میں اس قسم کی وارداتوں میں مسلسل اضافہ کا رجحان دیکھنے میں آرہا ہے۔ جس میں اہم سیاسی و سماجی شخصیات، ماہرین تعلیم حتیٰ کہ حجاموں اور چھوٹی موٹی محنت مزدوری کرنے والوں کو بھی محض شناخت کی بنیاد پر قتل کردیا جاتا ہے۔ خبروں کے مطابق مچھ میں ہونے والی وارداتوں میں نامعلوم افراد نے لاہور سے آنے والی بس کو روک کر مسافروں کے شناختی کارڈ دیکھنے کے بعد ان میں سے دس افراد کو گولی مار دی۔ ایسی وارداتیں جن میں سراسر بے گناہ لوگوں کو صرف اور صرف کسی رنگ، نسل، قومیت یا صوبے سے تعلق کی وجہ سے قتل کردیا جاتا ہو، کسی تنظیم کی جانب سے اپنی محرومیوں کو اجاگر کرنے کا کوئی پسندیدہ طریقہ ہرگز نہیں ہوسکتا۔ اس لئے کہ ایسی وارداتیں بھی دوسرے بے گناہ افراد ہی کے خلاف ظلم اور ناانصافی کے زمرے میں آتی ہیں۔ لہٰذا جو عناصر اس قسم کی وارداتوں میں ملوث ہیں انہیں اس طرح بے گناہ اور بے قصور انسانوں کے قتل سے گریز کرنا چاہئے اور اپنے حقوق کے حصول کیلئے زیادہ معقول اور مناسب طریقے اختیار کرنے چاہئیں۔یوں بھی ہمارا دین ہمیں کسی بے گناہ کے خلاف ظلم و زیادتی کرنے سے سختی کے ساتھ منع کرتا ہے ۔ بلوچستان کی حکومت کے ساتھ ساتھ وفاقی حکومت کے ارباب بست و کشاد کو بھی مذکورہ نوعیت کے واقعات کا سنجیدگی سے نوٹس لینا چاہئے اور اس قسم کی خطرناک وادارتوں کا مناسب طریقے سے تدارک کرنا چاہئے۔ اس لئے کہ بلوچستان میں اس قسم کے واقعات کے وجہ سے کراچی سے لے کر ملک کے دوسرے کونے تک سوچنے سمجھنے والے شہریوں کے دلوں میں خوف و ہراس کی ایک عجیب کیفیت پیدا ہورہی ہے اور اپنے ہی وطن کی سرزمین کے حوالے سے ان کے دلوں میں طرح طرح کے وسوسے جنم لے رہے ہیں۔

No comments:

Post a Comment