Wednesday, August 25, 2010

ڈوبی ہوئی بستیوں میں نیا جہاں تعمیر کرنے کا عزم






 
سید شاہد اکرام سے

اگرچہ سیلابی ریلا سمندر کے قریب پہنچ چکا ہے مگر ایک جانب بحیرہ عرب کی بپھری ہوئی کیفیت کے باعث اس کے آخری منزل تک پہنچنے میں زیادہ وقت لگنے کا خدشہ ہے دوسری طرف خیبر پختون نخوا اور پنجاب میں بارشوں کا نیا سلسلہ بننے کے باعث نئے خطرات نظرآ رہے ہیں۔ بھارت میں دریاؤں کے بھرنے اور بارشوں کے آثار کے باعث ان میں اضافہ ہوگیا ہے۔ یوں ایک اور بڑے چیلنج کا امکان مسترد نہیں کیا جاسکتا۔ سیلاب کے حوالے سے عام تاثر یہ ہے کہ اگر پہلے سے تیاریاں کی جاتیں، پشتوں کی درستگی اور مرمت پر خاطر خواہ توجہ دی جاتی، پانی کی گزرگاہ میں تجاوزات قائم نہ ہونے دی جاتیں، ٹھیکوں کی منظوری میں کرپشن کی بجائے تعمیری معیار کو اہمیت دی جاتی اور ہنگامی حالات سے نمٹنے کے لئے تحصیل سے لیکر صوبائی و وفاقی سطح تک ایک موثر نظام موجود ہوتا تو اس بڑی تباہی سے بچا جاسکتا تھا جس کا ملک اور اس کے عوام کو سامنا کرنا پڑا ہے۔ اب ایک اور ریلا آنے کے امکانات ہیں تو اس کے لئے متعلقہ سرکاری اداروں، سماجی تنظیموں، سیاسی کارکنوں، عام رضاکاروں اور بین الاقوامی برادری کی مدد سے پیشگی تیاریوں کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ہی ہم وفاقی و صوبائی حکومتوں کو یہ مشورہ بھی دینا چاہیں گے کہ سیلاب زدہ علاقوں میں تعمیر نو کے لئے ابھی سے تیاریاں شروع کردی جائیں تاکہ پانی اترنے کے بعد لوگوں کو اس غیر محفوظ کیفیت کا پھر سامنا نہ کرنا پڑے جس سے اب تک اس نوع کی ہر آفت کے بعدواسطہ پڑا ہے۔ دنیا بھر میں یہ ہوتا ہے کہ کسی ابتلا کو اپنے عوام کی تقدیر کا لکھا سمجھ کر مستقبل میں بھی ایسے مصائب کا شکار ہونے کے لئے انہیں حالات کے رحم وکرم پر نہیں چھوڑا جاتا بلکہ ان کی بحالی کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔ ان کے دیہات، قصبوں اور شہروں کو نئی ضروریات کے مطابق تعمیر کیا جاتا ہے اور المیوں کو جدت و ترقی کے ایسے سنہری مواقع میں تبدیل کردیا جاتا ہے جن کے ذریعے نہ صرف ہر بستی کے لوگوں کو رہائش، خوراک، طبی سہولتوں، تعلیم، روزگار سمیت تمام بنیادی سہولتیں فراہم کرنا ممکن ہوتا ہے بلکہ ان کے لئے معاشی و سماجی ترقی کے بہتر امکانات پیدا کئے جاتے ہیں۔ ہمیں بھی اس تعمیر نو کے تمام مراحل کے لئے پیشگی تیاری کرنی چاہئے تاکہ جب تعمیر نو اور آباد کاری کا مرحلہ درپیش ہو تو منصوبہ سازی کا فقدان اور انتظامی نقائص آڑے نہ آئیں۔ اس مقصد کے لئے وفاقی، صوبائی، ضلعی اور تحصیل کی سطح پر کمیٹیاں بنا کر سرکاری و غیر سرکاری ماہرین، یونیورسٹیوں کے محققین اور مقامی عمائدین سے مشاورت کا اہتمام کیا جائے جو ملک اور صوبوں کی مجموعی ضروریات، ہر علاقے کے حالات، بستیوں کی مقامی ضروریات کو پیش نظر رکھ کر اپنی اپنی تجاویز دیں۔ پھر ان کے تمام پہلوؤں پر غور و فکر کرکے منصوبے تیار کئے جائیں۔ ہمہ گیر اجتماعی مشاورت سے بننے والے پلان یقیناً زیادہ بہتر ہونگے اور ان کی موجودگی سے غیر ملکی اداروں کے بعض شکوک و تحفظات کو دور کرنے میں بھی مدد ملے گی۔ اس ضمن میں مقامی حکومتوں کے انتخابات ٹالنے کی موجودہ حکمت عملی کی بجائے ان کے جلد قیام کی تدابیر معاون ہونگی۔اچھے عزائم کے ساتھ شفاف انداز میں کام کئے جائیں تو مقامی لوگوں کی بھر پور عملی مدد ملتی ہے جو کسی بھی منصوبے کی کامیابی کے لئے کلیدی اہمیت رکھتی ہے۔ جبکہ بین الاقوامی برادری بھی اس اعتماد کے ساتھ آگے آتی ہے کہ اس کی اعانت رائیگاں نہیں جائے گی۔ اس تاریخی حقیقت کو بہرحال نظر انداز نہیں کیا جانا چاہئے کہ جو قومیں اپنی ہمت، صلاحیت اور قوت بازو کی بجائے غیر ملکی امداد پر انحصار اور اس کے انتظار کو اپنا شعار بنا لیتی ہیں، وہ سست، کاہل اور بے عمل ہوجاتی ہیں۔ تجربات بتاتے ہیں کہ جب ملکوں کے لئے بیرونی امداد کے امکانات کم ہوئے تو انہوں نے خود کاوشیں کرکے نئے امکانات پیدا کئے۔ وفاقی حکومت کے 402 ارب روپے اپنے وسائل سے حاصل کرنے کے فیصلے کو اس حوالے سے ایک مثبت رویہ قرار دیا جاسکتا ہے بشرطیکہ یہ رقم زیادہ وسائل کے حامل طبقات سے وصول کی جائے اور ان طبقات کو سہولتیں دی جائیں جنہیں مہنگائی نے پہلے ہی مار رکھا ہے اور جو سیلاب کی تباہ کاریوں سے بھی سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ اس وقت آئی ایم ایف کے قرضے کی روکی گئی اقساط جاری کرانے کے لئے متعلقہ حکام کو نئی یقین دہانیاں کرانے کی جو اطلاعات ہیں، ان سے یوٹیلٹی بلوں میں اضافے کے نئے امکانات پیدا ہوئے تو لوگوں میں نظام کے خلاف رد عمل بڑھ سکتا ہے جبکہ ماہرین کے خیال میں نامناسب شرائط قبول کرنے کا نتیجہ معیشت کے ایک بار پھر بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے کنٹرول میں چلے جانے کی صورت میں ظاہر ہوگا۔ اس لئے اس سے اجتناب برتتے ہوئے وزیر اعظم گیلانی کے بیان کے مطابق امدادی سرگرمیوں کو موثر بنانے کے لئے صوبوں اور وفاق کو باہمی رابطے بڑھانے چاہئیں تاکہ سیلاب زدگان کو بہتر طور پر امداد فراہم کی جا سکے۔ اس سلسلے میں مرکزی و صوبائی حکومتوں کا حجم کم کرنے سمیت بچت کے اقدامات اگر اعلانات سے آگے بڑھ کر عملی طور پر نظر آئیں تو خاصی رقوم فراہم کی جاسکتی ہیں۔ غیر ملکی بینکوں میں رکھی گئی رقوم کی واپسی، بینکوں سے سیاسی بنیاد پر معاف کرائے گئے قرضوں کی وصولی جیسی تدابیر کے بھی اچھے اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ جب صورتحال یہ ہو کہ ایک جانب سیلاب کی تباہ کاریوں سے دو کروڑ کے لگ بھگ پاکستانی متاثر ہوئے ہوں، ہزاروں افراد جاں بحق ہوچکے ہوں، لاکھوں افراد بے گھر ہو کر امدادی کیمپوں یا کھلے آسمان تلے بنیادی ضروریات کے لئے ترس رہے ہوں، ٹھٹھہ سمیت کئی مقامات پر ہزاروں افراد محصور ہوں، متعدد بستیوں کے غرق ہونے کے مناظر ٹی وی چینلوں پر نظر آ رہے ہوں اور دوسری جانب حکومت اور اپوزیشن میں شامل اشرافیہ کے اللے تللے جاری ہوں تو لوگوں کے مصائب بڑھ کر غصے میں تبدیل ہونے لگتے ہیں۔ اس لئے ہماری درد مندانہ درخواست ہے کہ حکومت اور اپوزیشن سمیت تمام حلقے فوٹو سیشنوں اور بیان بازیوں کے ذریعے لوگوں کی مایوسی بڑھانے کی بجائے مل جل کر ایسے اقدامات کریں جن کے مثبت اثرات نظر بھی آئیں۔ متاثرین کے ریسکیو اور ریلیف پر فوری توجہ دینے کے ساتھ ساتھ ماہرین کی اعانت سے بحالی، آباد کاری اور تعمیر نو کے قلیل مدتی، وسط مدتی اور طویل مدتی منصوبوں کی تیاری کا کام ابھی سے شروع کردیں تاکہ پانی اترتے ہی ایک روڈ میپ کے تحت بستیوں کی تعمیر اس انداز سے ہو کہ وہاں رہنے والوں کو وہ سہولتیں بھی مل سکیں جو پہلے انہیں حاصل نہیں تھیں۔ ان کاموں کے لئے غیر ملکی امداد میں کمی یا تاخیر کو عذر بنانے کی بجائے سادگی، کفایت شعاری، حکومتی اخراجات میں کمی کے ساتھ اپنے وسائل، دست و بازو اور صلاحیتوں پر انحصار کیا جائے گا تو زیادہ بہتر تعمیر نو ہوگی۔ صرف اسی طریقے سے تباہ شدہ کھنڈرات پر نئی بستیاں، نئے شہر اور نیا پاکستان تعمیر ہوگا۔

No comments:

Post a Comment