تحریر سید شاہد اکرام
امریکی وفاقی عدالت نے پاکستانی نژاد ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو سات مختلف مقدمات میں 86سال قید کی سزا سنائی ہے۔ واضح رہے کہ امریکی عدالت نے افغانستان میں امریکی افسران کو قتل کرنے کی مبینہ کوشش پر عافیہ صدیقی پر فرد جرم عائد کی تھی عدالت کی طرف سے سنائی جانے والی سزا کے تحت بظاہر عافیہ صدیقی کی رہائی کے امکانات ختم ہوگئے ہیں مگر اپیل کی گنجائش موجود ہے۔ فیصلے کے بعد امریکہ میں مقیم پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد نے عدالت کے باہر احتجاجی مظاہرہ کیا تاہم عافیہ صدیقی کا کہنا تھا کہ کوئی خون خرابہ نہ کیا جائے۔ وہ فیصلہ سننے کے باوجود نہایت پر اعتماد اور مطمئن نظر آتی تھیں تاہم ان کا کہنا تھا کہ یہ سزا میری شکست نہیں۔ اس کے ذمہ دار پاکستان کے حکمران ہیں۔ یاد رہے کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے امریکہ سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی اورمبینہ طور پر 30مارچ 2003ء کو کراچی سے اسلام آباد جاتے ہوئے اپنے تین بچوں کے ہمراہ لاپتہ ہوگئیں۔ بگرام جیل میں ان کی موجودگی کا انکشاف ایک برطانوی صحافی نے کیا تھا جہاں سے انہیں 6اگست 2008ء کو امریکہ منتقل کر دیا گیا اور 19جنوری 2010ء کو ان کے خلاف مقدمات پر عدالتی کارروائی شروع ہوئی۔ 3فروری 2010ء کو جیوری کے ارکان نے انہیں مجرم قرار دیا اور عدالت نے 86سال کی سزائے قید سنا دی۔ یہ معاملہ صرف عافیہ صدیقی تک ہی محدود نہیں بلکہ مشرف دور میں کئی پاکستانیوں کو امریکہ کے مطالبے پر اس کے حوالے کر دیا گیا اور آج تک ان کے ورثا سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں۔ ایک پاکستانی خاتون کے خلاف امریکی عدالت کے فیصلے پر ہونے والے ردعمل کا اندازہ پاکستان کے متعدد سیاسی و مذہبی رہنماؤں اور عوامی نمائندوں کے تبصروں سے لگایا جاسکتا ہے اور اس حوالے سے یہ توقع رکھنا بے جا نہ ہوگا کہ حکومت پاکستان ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے لئے یقینا کوشش کرے گی اور ذمہ دار امریکی حلقے بھی اس ردعمل کے حوالے سے عدالتی فیصلے پر نظرثانی کرسکتے ہیں کیونکہ دہشت گردی کے خلاف دونوں ملکوں کے درمیان گہرے تعلقات اور بالخصوص پاکستان کی طرف سے فرنٹ لائن سٹیٹ کا کردار ادا کرنے کے حوالے سے امریکی عدالتی فیصلے پر نظرثانی کی توقع رکھی جاسکتی ہے۔ پاکستان اور امریکہ کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کا کوئی معاہدہ نہیں۔ اب حالات کا تقاضایہ ہے کہ حکومت اس سلسلے میں سرگرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے امریکہ سے قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ کرے تاکہ پاکستانی قیدیوں پر پاکستان میں مقدمات چلانے کے لئے انہیں واپس وطن لایا جاسکے۔سابق وزیراعظم میاں نواز شریف ،وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف، عمران خان، جنرل (ر) حمید گل، حافظ سعید، مولانا فضل الرحمن ،امیر جماعت اسلامی سید منور حسن، ایم کیو ایم کے الطاف حسین نے اس فیصلے کو کھلا ظلم قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت پاکستان کو خاموش بیٹھنے کی بجائے اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ جماعت اسلامی سمیت کئی مذہبی تنظیموں، علمائے کرام اور سپریم کورٹ بار نے جمعہ کویوم احتجاج منایا،جبکہ سنیٹر سلیم سیف اللہ نے کہا ہے کہ امریکی عدالت کا یہ فیصلہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے دورہ امریکہ منسوخ کر دیا ہے اور اسے پاکستانی قوم پر حملہ قرار دیا ہے۔ عوامی حلقوں کا تاثر یہ ہے کہ صدر زرداری کو خود امریکہ جاکر ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کی کوشش کرنی چاہئے کیونکہ امریکی صدر کو اس سزا کے خاتمے کا اختیار حاصل ہے، تاہم یہ امر افسوسناک ہے کہ قومی اسمبلی کا اجلاس ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے مسئلے پر بحث کے بغیر ملتوی کر دیا گیا۔ اگر اسمبلی اس مسئلے کو زیر بحث لاتی اور ارکان اسمبلی کو اس مسئلے پر اظہار خیال کا موقع دیا جاتا تو یہ عوامی جذبات کی ترجمانی ہوتی جو امریکہ کے لئے ایک پیغام ثابت ہوسکتی تھی۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی والدہ اور بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرکے جن خیالات کا اظہار کیا وہ نہ صرف ان کے بلکہ پوری پاکستانی قوم کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ آج ہمارا سر فخر سے بلند ہوگیا ہے ۔ اس نے انتہائی تشدد کے خلاف بھی سر نہیں جھکایا،پاکستان کے تمام سیاستدانوں کو اس کا حساب دینا ہوگا۔ عافیہ صدیقی کی والدہ کا کہنا ہے کہ ہم صبر و تحمل سے کام لیں گے اور ہماری بیٹی جلد رہا ہو کر ہمارے پاس ہوگی ہماری بیٹی پر امریکیوں پر فائرنگ کرنے کا الزام غلط ہے۔ یاد رہے کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں امریکہ کے حوالے کیا گیا تھا اوران کے تین بچے بھی لاپتہ ہوگئے تھے۔ اس حوالے سے ملک کے متعدد سیاسی اور مذہبی قائدین اور عوامی حلقوں کا یہ مطالبہ رہا ہے کہ سابق صدرکو وطن واپس لاکر ان پر غداری کا مقدمہ چلایا جائے۔ حکومت کو بہرحال اس عوامی ردعمل کو نظرانداز نہیں کرنا چاہئے اور پاک امریکہ تعلقات کے حوالے سے صدر امریکہ کی توجہ پاکستانی عوام کے جذبات اور ردعمل کی طرف مبذول کرانی چاہئے۔ جہاں تک سیاسی و مذہبی جماعتوں کی طرف سے احتجاجی مظاہروں اور ریلیوں کا تعلق ہے یہ ان کا قانونی حق ہے لیکن یہ بات بطور خاص پیش نظر رہنی چاہئے کہ ماضی کی طرح احتجاجی مظاہروں کے دوران نجی و سرکاری املاک کی تباہی اور توڑ پھوڑ سے مکمل اجتناب کیا جانا چاہئے کیونکہ اس سے پوری قومی زندگی متاثر ہوتی ہے اور اپنے ہی شہریوں کو بھاری نقصان اٹھانا پڑتا ہے، اس بات پر بھی کڑی نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ ان مظاہروں میں تخریب کار، دہشت گرد اور پاکستان دشمن عناصر کو شامل ہونے اور کھل کھیلنے کا موقع نہ ملے۔ تمام مذہبی اور سیاسی جماعتوں کو مظاہروں میں شریک ہونے والے افراد پر کڑی نظر رکھنا ہوگی۔ حکومت پاکستان کو بھی سیاسی و سفارتی سطح پر امریکی حکام سے رابطے کرکے انہیں پاکستانی عوام کے جذبات سے آگاہ کرنا ہوگا۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو سنائی جانے والی سزا کے خلاف پاکستان کے اپوزیشن ،سیاسی و مذہبی حلقے ہی سراپا احتجاج نہیں بلکہ بعض حکومتی حلقوں کی طرف سے بھی ناخوشگوار ردعمل سامنے آیا ہے۔ گورنر پنجاب سلمان تاثیر کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے مسئلے پر پوری قوم پریشان ہے اور امریکہ سے رہائی کا مطالبہ کرتی ہے ۔ پی پی پی پنجاب کے صدر اور متعدد دوسرے رہنماؤں کا ردعمل پاکستانی عوام کے جذبات کی نہ صرف ترجمانی کرتا ہے بلکہ امریکی عدالت اور حکام کی خصوصی توجہ چاہتا ہے۔ قوم یہ توقع رکھنے میں حق بجانب ہے کہ امریکہ کا ایک اتحادی ہونے اور دہشت گردی کے خلاف اس کا بھرپور ساتھ دینے کے نتیجے میں اعلیٰ امریکی عدالتیں اور بالخصوص اختیارات کے حوالے سے صدر اوباما کو اپنے صوابدیدی اختیارات استعمال کرتے ہوئے عافیہ صدیقی کو رہا کر دینا چاہئے تاکہ پاک امریکہ تعلقات میں ایک خوشگوار اور مثبت پیش رفت کا احساس اجاگر ہو۔
Friday, September 24, 2010
Tuesday, September 14, 2010
مقبوضہ کشمیر کی بگڑتی ہوئی صورتحال اور پاکستان
تحریر سید شاہد اکرام
مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے غاصبانہ قبضے کے خلاف ایجی ٹیشن نے مزید شدت اختیار کر لی ہے۔ پیر کو سری نگر سمیت کئی شہروں میں کرفیو کی سخت ترین پابندیوں کی پروا نہ کرتے ہوئے کشمیری نوجوان سڑکوں پر نکل آئے اور بھارت سے آزادی کے حق میں مظاہرے کئے۔ اس دوران 16پولیس سٹیشنوں پر حملے کئے گئے اور درجن بھر سرکاری عمارات کو آگ لگا دی گئی۔ بھارتی فوج نے جسے کشمیریوں کو کچلنے کیلئے وسیع اختیارات دئیے گئے ہیں کئی مقامات پر اندھا دھند فائرنگ کی جس سے 18افراد شہید اور سو سے زائد زخمی ہو گئے۔ مظاہرین نے اپنا پیچھا کرنے والے بھارتی فوجیوں پر سنگ باری کی جس سے ایک بھارتی اہلکار ہلاک اور کئی زخمی ہوئے۔ صورتحال کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ نئی دہلی میں بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ نے سلامتی امور سے متعلق کابینہ کی کمیٹی کا ہنگامی اجلاس بلایا جس میں مقبوضہ کشمیر کے حالات پر غور کیلئے کل جماعتی کانفرنس منعقد کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ یہ اجلاس بدھ کو ہو گا اور اس میں شرکت کیلئے بھارت کی تمام سیاسی پارٹیوں کو دعوت دی گئی ہے۔ بھارتی وزیر اعظم نے مسلح افواج کے اعلیٰ کمانڈروں کا بھی ایک اجلاس بلایا جس میں مقبوضہ کشمیر کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا اور کشمیری نوجوانوں کیلئے نوکریوں اور دیگر معاشی سہولتیں دینے کی پیشکش کی۔ کل جماعتی حریت کانفرنس کے رہنماؤں میر واعظ مولوی عمر فاروق اور یاسین ملک نے بھارتی وزیر اعظم کی یہ پیشکش فوری طور پر مسترد کر دی ہے اور کہا ہے کہ کشمیری نوجوان معاشی مراعات یا نوکریوں کیلئے نہیں بلکہ جموں و کشمیر کی آزادی کیلئے سروں پر کفن باندھ کر باہر نکلے ہیں۔ اب وہ آزادی کے سوا کوئی رعایت قبول نہیں کریں گے۔ مولوی عمر فاروق نے جن کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔ واضح کیا ہے کہ کشمیری عوام حق خودارادیت لے کے رہیں گے۔ بھارتی آئین کے تحت اس مسئلے کا کوئی حل نہیں نکل سکتا۔ حریت کانفرنس کے ایک اور اہم رہنما سید علی گیلانی نے بھی بھارت پر زور دیا ہے کہ وہ جبر و تشدد کے ذریعے کشمیر پر قبضہ برقرار رکھنے کی سوچ ترک کر دے۔ یاسین ملک نے بھارت کو خبردار کیا ہے کہ جموں و کشمیر کی آزادی کیلئے چلنے والی تحریک اس سے قبل پرانی نسل کے لوگوں کے پاس تھی۔ اب اس کی باگ ڈ ور نوجوان نسل نے سنبھال لی ہے اور وہ آزادی کے حصول کیلئے ہر قربانی دینے کا عزم رکھتے ہیں۔ معاشی مراعات کا لالچ انہیں اس راہ سے نہیں ہٹا سکتا۔حقیقت یہ ہے کہ ساری کشمیری قوم اس وقت بھارت کے جابرانہ تسلط سے آزادی کیلئے اٹھ کھڑی ہوئی ہے۔ ہم نے ان کالموں میں کل بھی احساس دلایا تھا کہ مقبوضہ کشمیر میں پچھلے چار ماہ سے جاری جدوجہد آزادی کی نئی لہر روز بروز طاقت پکڑ رہی ہے اور بھارت کیلئے اسے نظر انداز کرنا آسان نہیں ہو گا۔ ہماری اس سوچ کی تصدیق ایک بھارتی اخبار میں شائع ہونے والی اس سروے رپورٹ سے بھی ہوتی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ بھارت کے زیر اہتمام کشمیر کی تقریباً دو تہائی آبادی اپنے خطے کی آزادی چاہتی ہے۔ بھارتی اخبار کے مطابق 66فیصد کشمیری مکمل آزادی کے حق میں ہیں۔ 56فیصد نے مقبوضہ کشمیر کے حالیہ پر تشدد واقعات کا ذمہ دار بھارت کو قرار دیا ہے۔ اور 96فیصد نے بھارتی فوج کے ظالمانہ کردار کی مذمت کی ہے۔ یوں تو کشمیری عوام کی جدوجہد برصغیر کی تقسیم کے وقت سے جاری ہے مگر بھارت سے علیحدگی اور حق خودارادیت کے حصول کیلئے بیس سال قبل جو تحریک شروع کی گئی تھی صرف اس میں اب تک 47ہزار کشمیری اپنی جانیں قربان کر چکے ہیں۔ بھارت اگر سمجھتا ہے کہ اتنی قربانیاں دینے کے بعد بھی کشمیری عوام اس کا تسلط قبول کر لیں گے تو یہ اس کی سخت بھول ہے۔ بھارتی فوج اس وقت پوری وادی کشمیر میں ٹارگٹ کلنگ کر رہی ہے۔ سری نگر میں تو اسے حکم دیا گیا ہے کہ ”دہشت گردوں“ کو دیکھتے ہی گولی مار دی جائے۔ یہ قتل عام کا ایک طرح سے کھلا لائسنس ہے۔ یہاں تک کہ مساجد سے نماز کی ادائیگی کے بعد باہر نکلنے والے نوجوانوں کو بھی گولیوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ فوج کو اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی بھی کشمیری کو دہشت گرد قرار دے کر اسے جان سے مار سکتی ہے یا پکڑ سکتی ہے اور حکومت ایسے لوگوں کی جائیداد ضبط کر لیتی ہے۔ اب تو خود کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ اس ظلم کے خلاف آواز اٹھانے پر مجبور ہو گئے ہیں ۔ انہوں نے بھارتی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ فوج سے یہ ظالمانہ اختیارات واپس لئے جائیں۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ پچھلے تین ماہ میں بھارتی فوج کی کارروائیوں کے نتیجے میں 90سے زائد کشمیری مسلمان شہید ہو چکے ہیں۔ وادی میں حالات بے قابو ہو جانے پر عمر عبداللہ نے پیر کو اپنی کابینہ کا خصوصی اجلاس طلب کیا جو رات گئے تک جاری رہا۔ اس دوران انہوں نے بھارتی کانگریس کی صدر سونیا گاندھی کو بھی ٹیلی فون کیا اور حالات پر قابو پانے کیلئے ان کی مدد طلب کی۔مقبوضہ وادی سے آنے والی اطلاعات کے مطابق کشمیری مظاہرین نے کئی مقامات پر بھارتی پر چم نذر آتش کیا اس کی جگہ پاکستانی پرچم لہرا دیا اور پاکستان کے حق میں نعرے لگائے۔ ایسے موقعوں پر بھارت کو پاکستان پر الزام تراشی کا موقع مل جاتا ہے اور وہ پروپیگنڈہ شروع کر دیتا ہے کہ پاکستان مقبوضہ کشمیر میں مداخلت کر رہا ہے اور ”گھس بیٹھئے“ بھیج رہا ہے۔ مگر اس وقت جو صورتحال ہے اس میں کسی طرح بھی پاکستان ملوث نظر نہیں آتا۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ یہ تحریک وہاں یکایک شروع نہیں ہوئی۔ پچھلے بیس برس سے جاری ہے اور اس کی قیادت خود معروف کشمیری رہنما خصوصاً نوجوان نسل کر رہی ہے۔ دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ پاکستان خود اپنے مسائل میں گھرا ہوا ہے۔ وہ کوئی نیا محاذ کھولنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان مسئلہ کشمیر کا ایک فریق ہے۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق اس مسئلے کے حتمی حل میں اس کا ایک کردار ہے۔ وہ کشمیری عوام کو حق خودارادیت دلانے کی کمٹمنٹ کر چکا ہے جسے وہ کسی قیمت پر فراموش نہیں کر سکتا۔ ملک میں سیلاب کی تباہ کاریوں نے حکومت سمیت پوری قو م کی توجہ اپنی طرف مبذول کر رکھی ہے۔ لیکن مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی چیرہ دستیوں کو سرے سے نظر انداز کرنا ہماری کمٹمنٹ کے تقاضوں کے خلاف ہے دنیا کو یہ تو پتہ چل چکا ہے کہ وہاں چلنے والی آزادی کی تحریک کشمیری عوام کی اپنی تحریک ہے۔ پاکستان کی ”مداخلت“ کا نتیجہ نہیں۔ مگر یہ پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ وہ کشمیری عوام کے کاز سے یکجہتی کے اظہار کیلئے خود بھی عالمی برادری کے دروازے پر دستک دے۔ اس مقصد کیلئے وزارت خارجہ کا ہنگامی اجلاس بلا کر ساری صورتحال پر غور کر کے ایک موثر حکمت عملی تیار کرنا ہو گی کہ اس مسئلہ کو عالمی سطح پر کیسے اٹھایا جائے۔ دنیا بھر کے دارالحکومتوں میں متعین اپنے سفارتکاروں کو متحرک کرنا ہو گا۔ اس کے علاوہ قوم کو بھی اعتماد میں لینا ہو گا جو مقبوضہ کشمیر کی سنگین صورتحال کے حوالے سے فکر مند ہے۔
Sunday, September 5, 2010
استحکام پاکستان کے دشمن ہمیں للکاررہے ہیں
تحریر سید شاہد اکرام
سانحہ لاہور کے بعد پھر ایک مرتبہ جمعتہ المبارک کے روز کوئٹہ میں القدس ریلی میں شرکاء کی لاشیں اورخون کی بہتی ہوئی ندیوں اور انسانی جسموں کے چیتھڑے اڑتے دیکھ کر پوری قوم غم و الم کا مجسمہ بن گئی۔ ہر طرف لاشیں گرتی رہیں اور انسانی خون بہتا رہا۔ اس طرح ماہ ِ رمضان المبارک کے ایک مقدس دن کی شام بھی خون آلود ہوگئی جاں بحق ہونے والے بچوں ، مردوں اورخواتین کے لواحقین دھاڑیں مار مار کر روتے رہے اور خدا معلوم اس المیے کے باعث کتنے بچے یتیم اور کتنی خواتین بیوگی کے داغ جدائی کو سینے سے لگائے حسرت و یاس کا مجسمہ بن کر رہ جائیں گی۔ یہ سانحہ اس وقت رونما ہوا جب آئی ایس او کی جانب سے فلسطینیوں سے اظہار ِ یکجہتی کرتے ہوئے ہر سال کی طرح اس سال بھی ایک ریلی کا اہتمام کیا گیا جس میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ جب ریلی میزان چوک کے قریب پہنچی تو نامعلوم دہشت گرد نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا جس کے نتیجے میں 65 افراد شہید اور 197 کے لگ بھگ زخمی ہوگئے۔ بعض اطلاعات کے مطابق شہید اور زخمی ہونے والوں کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔ تمام ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذکردی گئی جہاں متعد د زخمیوں کی حالت نازک بیان کی جاتی ہے۔ اس سانحہ نے کوئٹہ میں قیامت صغریٰ کا منظر پیش کیا۔ شہر کے تمام تجارتی و کاروباری ادارے بند ہوگئے اور خودکش حملے کے بعد فائرنگ سے بھی متعدد افراد زخمی ہوئے۔ مشتعل نوجوانوں نے میزان چوک میں لگائے گئے سیلاب زدگان کے کیمپوں کو آگ لگا دی، متعدد گاڑیاں، عمارتیں نذرِ آتش ہوگئیں۔ شہریوں میں زبردست خوف و ہراس پایا جاتا ہے۔ کوئٹہ جانے والے تمام راستے بند کر دیئے گئے۔ کوئٹہ پولیس کے حکام کا کہنا ہے کہ ریلی کے شرکاء روکے جانے کے باوجود راستہ بدل کر مقررہ مقام کی بجائے بازار میں آگئے جس سے دہشت گردوں کو کھل کھیلنے اور اپنا منصوبہ مکمل کرنے کا موقع مل گیا۔ خفیہ اطلاع کے مطابق ریلی کے لئے مقرر کردہ راستے پر سخت حفاظتی اقدامات کئے گئے تھے لیکن راستہ تبدیل کرنے سے دہشت گردوں کو کھل کھیلنے کا موقع مل گیا۔ قوم کی اس سے بڑی بدقسمتی اور کیا ہوسکتی ہے کہ رمضان المبارک کے ماہ ِ مقدس میں لاہورکے بعد کوئٹہ میں بے گناہ انسانوں کا خون بہایا گیا اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے یوم شہادت اور کوئٹہ میں یوم القدس کے موقع پر دہشت گردوں نے خون کی ہولی سے پوری قوم کودل گرفتہ کر دیا۔صدر اور وزیراعظم نے سانحہ میں جاں بحق ہونے والوں کے ورثا سے اظہار ہمدردی کرتے ہوئے واقعہ کی فوری تحقیقات کا حکم دیا ہے۔یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ رمضان المبارک میں ایک طرف سیلاب کی تباہ کاریوں نے پورے ملک کو لپیٹ میں لے کر دو کروڑ سے زائد افراد کو متاثر اور لاکھوں کوبے گھر کرنے کے بعد قومی معیشت کو بھی متزلزل کرکے رکھ دیا ہے دوسری طرف یہ المناک واقعات اس امر کی غمازی کرتے ہیں کہ دہشت گرد ملک میں امن و استحکام نہیں چاہتے وہ ہماری یکجہتی کے درپے ہیں۔ وہ حکومت اورمعاشرے کو ہمیشہ منتشر اور مضطرب رکھنا چاہتے ہیں۔ انہیں مذہبی جذبات کا خیال ہے نہ مصیبت زدہ عوام کی کوئی پرواہ ہے۔ وہ آگ اور خون کا کھیل کھیلتے رہتے ہیں تاکہ حکومت سیلاب کی تباہ کاریوں اور ایسے سانحات کی وجہ سے معاشی استحکام کی طرف توجہ نہ دے سکے۔ اس طرح حکومت اور عوام کے لئے سیلاب زدگان کی بحالی، متاثرہ علاقوں کی تعمیر نو اور آئے روز کے بحرانوں کے باعث دہشت گردوں سے نمٹنا نہیں ہوسکے گا۔ دہشت گردوں کا ہدف یہ بھی ہے کہ ملک عدم استحکام کا شکار ہو،عوام مذہبی تقریبات کااہتمام کرنے سے گریز کریں اورایسے سانحات کے بعد مختلف مذہبی مکاتب ِ فکر کی طرف سے ایک دوسرے کے خلاف بدگمانی ، فرقہ واریت اور مذہبی محاذ آرائی شروع ہوجانے اور جان و مال کے عدم تحفظ کے باعث مذہبی، سماجی ، معاشرتی اور کاروباری تقریبات کااہتمام ممکن نہ رہے۔ اس پس منظر میں ہمیں دہشت گردوں کے ان مذموم عزائم کا ادراک کرتے ہوئے اس سے بالاتر ہو کر سوچنا چاہئے کہ ان عزائم سے کس طرح موثر اورنتیجہ خیز طور پر نمٹا جاسکتا ہے لہٰذا وسیع تر مشاورت کے ذریعے تمام مذہبی، سیاسی جماعتوں اورمختلف تنظیموں کے قائدین کو مل بیٹھ کر اس صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لئے اپنے آپ کو تیار کرنا ہوگا اوراس کے لئے ایک موثر لائحہ عمل تیار کرنے کے بعد اس پر تمام فکری صلاحیتوں کوبروئے کار لاتے ہوئے عملدرآمد کرنا ہوگا۔ اس حوالے سے قومی اسمبلی کے حالیہ اجلاس میں منظور کردہ قراردادیں بھی قومی اتحاد و یکجہتی کے لئے رہنما اصول کا درجہ رکھتی ہیں جن میں جمہوری نظام اورجمہوری اداروں کے استحکام، قومی سالمیت، یکجہتی اور بین الصوبائی ہم آہنگی پر زور دیا گیا ہے۔ ایوان نے آئین کی بالادستی، بنیادی حقوق کی ضمانت اور قانون کی حکمرانی کو بھی ناگزیر قرار دیا البتہ فوج کی طرف سے متاثرین کے لئے امدادی رقوم جمع کرنے کو غیرقانونی قرار دینے سے عسکری قیادت اور سیاسی قائدین کے درمیان غلط فہمی ملک میں انتشار کا باعث بن سکتی ہے۔ اس حوالے سے فوج کی امدادی سرگرمیوں سے خوفزدہ حکومتی اور اپوزیشن ارکان کی طرف سے قرارداد کی تیاری میں سرگرمی کا مظاہرہ کوئی اچھی بات نہیں۔ ہمیں ایسے بے بنیاد خدشات سے بالاتر ہوکر سوچنا چاہئے تاکہ دہشت گردوں کے عزائم سے مکمل اتحاد و یکجہتی کے ساتھ نمٹا جاسکے کیونکہ ابھی دہشت گردوں کی طرف سے مزید دھمکیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ عیدالفطر پر تجارتی و کاروباری مراکز میں خریداری کے لئے شہریوں کا ہجوم اور اجتماعات جمعتہ الوداع اور عیدالفطر پر مساجد اور امام بارگاہوں میں لاکھوں نمازیوں کی موجودگی کے پیش نظر ضروری ہے کہ ان کی حفاظت کے لئے حکومت ، پولیس اور دوسری ایجنسیاں موثر اقدامات کو یقینی بنائیں اور اس کے لئے بلاتاخیر ایکشن پلان تیار کیاجائے۔ عوام کی بھی یہ ذمہ اری ہے کہ وہ ایسے اجتماعات کے موقع پر اپنے گھروں کے آس پاس اجنبی اورمشتبہ افراد پر کڑی نظر رکھیں اور بروقت پولیس کو بھی مطلع کریں ہم اپنے ان کالموں میں متعدد مرتبہ یہ صائب مشورہ دے چکے ہیں کہ شہروں اوردیہات میں ماضی کے محلے داری نظام اور پنچایت سسٹم کو فروغ دیا جائے تاکہ محلے کے بزرگ اور ذمہ دارافراد ایسے اجنبی افراد کو فوراً پہچان سکیں۔ محض حکومتی حلقوں کی طرف سے ایسے المناک واقعات پر آئندہ شہریوں کے جان ومال کے تحفظ کی یقین دہانی پر مبنی روایتی بیانات مسئلے کا حل نہیں عوام میں ہر لمحہ جان و مال کے عدم تحفظ کا احساس بڑھتا جارہاہے۔ وہ سخت پریشان اور مایوس ہیں۔ رمضان المبارک کا مہینہ خون آلود ہونے کے باعث عیدالفطر ایسے مقدس مذہبی تہوار کی خوشیاں بھی ماند پڑ رہی ہیں اوریہ خدشہ بھی موجود ہے کہ دہشت گرد عیدالفطر کے اجتماعات، مساجد اور امام بارگاہوں اور کھلے میدانوں میں نماز ِ عید ادا کرنے والوں کو نشانہ بنانے کی منصوبہ بندی کرسکتے ہیں اس لئے کہ دہشت گردوں نے رمضان المبارک میں دہشت گردی کے المناک واقعات سے ثابت کر دیا ہے کہ انہوں نے اپنی سرگرمیاں ترک نہیں کیں بلکہ انہیں تیز تر کر دیا ہے لہٰذا یہ صورتحال پوری قوم، حکومت، پولیس اور تمام دوسری ایجنسیوں سے اس امر کا تقاضا کرتی ہے کہ ان سب کو کسی بھی سانحہ سے نمٹنے کے لئے پوری طرح تیار رہنا چاہئے اسی میں ہماری فلاح و بقا ہے۔
سانحہ لاہور کے بعد پھر ایک مرتبہ جمعتہ المبارک کے روز کوئٹہ میں القدس ریلی میں شرکاء کی لاشیں اورخون کی بہتی ہوئی ندیوں اور انسانی جسموں کے چیتھڑے اڑتے دیکھ کر پوری قوم غم و الم کا مجسمہ بن گئی۔ ہر طرف لاشیں گرتی رہیں اور انسانی خون بہتا رہا۔ اس طرح ماہ ِ رمضان المبارک کے ایک مقدس دن کی شام بھی خون آلود ہوگئی جاں بحق ہونے والے بچوں ، مردوں اورخواتین کے لواحقین دھاڑیں مار مار کر روتے رہے اور خدا معلوم اس المیے کے باعث کتنے بچے یتیم اور کتنی خواتین بیوگی کے داغ جدائی کو سینے سے لگائے حسرت و یاس کا مجسمہ بن کر رہ جائیں گی۔ یہ سانحہ اس وقت رونما ہوا جب آئی ایس او کی جانب سے فلسطینیوں سے اظہار ِ یکجہتی کرتے ہوئے ہر سال کی طرح اس سال بھی ایک ریلی کا اہتمام کیا گیا جس میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ جب ریلی میزان چوک کے قریب پہنچی تو نامعلوم دہشت گرد نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا جس کے نتیجے میں 65 افراد شہید اور 197 کے لگ بھگ زخمی ہوگئے۔ بعض اطلاعات کے مطابق شہید اور زخمی ہونے والوں کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔ تمام ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذکردی گئی جہاں متعد د زخمیوں کی حالت نازک بیان کی جاتی ہے۔ اس سانحہ نے کوئٹہ میں قیامت صغریٰ کا منظر پیش کیا۔ شہر کے تمام تجارتی و کاروباری ادارے بند ہوگئے اور خودکش حملے کے بعد فائرنگ سے بھی متعدد افراد زخمی ہوئے۔ مشتعل نوجوانوں نے میزان چوک میں لگائے گئے سیلاب زدگان کے کیمپوں کو آگ لگا دی، متعدد گاڑیاں، عمارتیں نذرِ آتش ہوگئیں۔ شہریوں میں زبردست خوف و ہراس پایا جاتا ہے۔ کوئٹہ جانے والے تمام راستے بند کر دیئے گئے۔ کوئٹہ پولیس کے حکام کا کہنا ہے کہ ریلی کے شرکاء روکے جانے کے باوجود راستہ بدل کر مقررہ مقام کی بجائے بازار میں آگئے جس سے دہشت گردوں کو کھل کھیلنے اور اپنا منصوبہ مکمل کرنے کا موقع مل گیا۔ خفیہ اطلاع کے مطابق ریلی کے لئے مقرر کردہ راستے پر سخت حفاظتی اقدامات کئے گئے تھے لیکن راستہ تبدیل کرنے سے دہشت گردوں کو کھل کھیلنے کا موقع مل گیا۔ قوم کی اس سے بڑی بدقسمتی اور کیا ہوسکتی ہے کہ رمضان المبارک کے ماہ ِ مقدس میں لاہورکے بعد کوئٹہ میں بے گناہ انسانوں کا خون بہایا گیا اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے یوم شہادت اور کوئٹہ میں یوم القدس کے موقع پر دہشت گردوں نے خون کی ہولی سے پوری قوم کودل گرفتہ کر دیا۔صدر اور وزیراعظم نے سانحہ میں جاں بحق ہونے والوں کے ورثا سے اظہار ہمدردی کرتے ہوئے واقعہ کی فوری تحقیقات کا حکم دیا ہے۔یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ رمضان المبارک میں ایک طرف سیلاب کی تباہ کاریوں نے پورے ملک کو لپیٹ میں لے کر دو کروڑ سے زائد افراد کو متاثر اور لاکھوں کوبے گھر کرنے کے بعد قومی معیشت کو بھی متزلزل کرکے رکھ دیا ہے دوسری طرف یہ المناک واقعات اس امر کی غمازی کرتے ہیں کہ دہشت گرد ملک میں امن و استحکام نہیں چاہتے وہ ہماری یکجہتی کے درپے ہیں۔ وہ حکومت اورمعاشرے کو ہمیشہ منتشر اور مضطرب رکھنا چاہتے ہیں۔ انہیں مذہبی جذبات کا خیال ہے نہ مصیبت زدہ عوام کی کوئی پرواہ ہے۔ وہ آگ اور خون کا کھیل کھیلتے رہتے ہیں تاکہ حکومت سیلاب کی تباہ کاریوں اور ایسے سانحات کی وجہ سے معاشی استحکام کی طرف توجہ نہ دے سکے۔ اس طرح حکومت اور عوام کے لئے سیلاب زدگان کی بحالی، متاثرہ علاقوں کی تعمیر نو اور آئے روز کے بحرانوں کے باعث دہشت گردوں سے نمٹنا نہیں ہوسکے گا۔ دہشت گردوں کا ہدف یہ بھی ہے کہ ملک عدم استحکام کا شکار ہو،عوام مذہبی تقریبات کااہتمام کرنے سے گریز کریں اورایسے سانحات کے بعد مختلف مذہبی مکاتب ِ فکر کی طرف سے ایک دوسرے کے خلاف بدگمانی ، فرقہ واریت اور مذہبی محاذ آرائی شروع ہوجانے اور جان و مال کے عدم تحفظ کے باعث مذہبی، سماجی ، معاشرتی اور کاروباری تقریبات کااہتمام ممکن نہ رہے۔ اس پس منظر میں ہمیں دہشت گردوں کے ان مذموم عزائم کا ادراک کرتے ہوئے اس سے بالاتر ہو کر سوچنا چاہئے کہ ان عزائم سے کس طرح موثر اورنتیجہ خیز طور پر نمٹا جاسکتا ہے لہٰذا وسیع تر مشاورت کے ذریعے تمام مذہبی، سیاسی جماعتوں اورمختلف تنظیموں کے قائدین کو مل بیٹھ کر اس صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لئے اپنے آپ کو تیار کرنا ہوگا اوراس کے لئے ایک موثر لائحہ عمل تیار کرنے کے بعد اس پر تمام فکری صلاحیتوں کوبروئے کار لاتے ہوئے عملدرآمد کرنا ہوگا۔ اس حوالے سے قومی اسمبلی کے حالیہ اجلاس میں منظور کردہ قراردادیں بھی قومی اتحاد و یکجہتی کے لئے رہنما اصول کا درجہ رکھتی ہیں جن میں جمہوری نظام اورجمہوری اداروں کے استحکام، قومی سالمیت، یکجہتی اور بین الصوبائی ہم آہنگی پر زور دیا گیا ہے۔ ایوان نے آئین کی بالادستی، بنیادی حقوق کی ضمانت اور قانون کی حکمرانی کو بھی ناگزیر قرار دیا البتہ فوج کی طرف سے متاثرین کے لئے امدادی رقوم جمع کرنے کو غیرقانونی قرار دینے سے عسکری قیادت اور سیاسی قائدین کے درمیان غلط فہمی ملک میں انتشار کا باعث بن سکتی ہے۔ اس حوالے سے فوج کی امدادی سرگرمیوں سے خوفزدہ حکومتی اور اپوزیشن ارکان کی طرف سے قرارداد کی تیاری میں سرگرمی کا مظاہرہ کوئی اچھی بات نہیں۔ ہمیں ایسے بے بنیاد خدشات سے بالاتر ہوکر سوچنا چاہئے تاکہ دہشت گردوں کے عزائم سے مکمل اتحاد و یکجہتی کے ساتھ نمٹا جاسکے کیونکہ ابھی دہشت گردوں کی طرف سے مزید دھمکیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ عیدالفطر پر تجارتی و کاروباری مراکز میں خریداری کے لئے شہریوں کا ہجوم اور اجتماعات جمعتہ الوداع اور عیدالفطر پر مساجد اور امام بارگاہوں میں لاکھوں نمازیوں کی موجودگی کے پیش نظر ضروری ہے کہ ان کی حفاظت کے لئے حکومت ، پولیس اور دوسری ایجنسیاں موثر اقدامات کو یقینی بنائیں اور اس کے لئے بلاتاخیر ایکشن پلان تیار کیاجائے۔ عوام کی بھی یہ ذمہ اری ہے کہ وہ ایسے اجتماعات کے موقع پر اپنے گھروں کے آس پاس اجنبی اورمشتبہ افراد پر کڑی نظر رکھیں اور بروقت پولیس کو بھی مطلع کریں ہم اپنے ان کالموں میں متعدد مرتبہ یہ صائب مشورہ دے چکے ہیں کہ شہروں اوردیہات میں ماضی کے محلے داری نظام اور پنچایت سسٹم کو فروغ دیا جائے تاکہ محلے کے بزرگ اور ذمہ دارافراد ایسے اجنبی افراد کو فوراً پہچان سکیں۔ محض حکومتی حلقوں کی طرف سے ایسے المناک واقعات پر آئندہ شہریوں کے جان ومال کے تحفظ کی یقین دہانی پر مبنی روایتی بیانات مسئلے کا حل نہیں عوام میں ہر لمحہ جان و مال کے عدم تحفظ کا احساس بڑھتا جارہاہے۔ وہ سخت پریشان اور مایوس ہیں۔ رمضان المبارک کا مہینہ خون آلود ہونے کے باعث عیدالفطر ایسے مقدس مذہبی تہوار کی خوشیاں بھی ماند پڑ رہی ہیں اوریہ خدشہ بھی موجود ہے کہ دہشت گرد عیدالفطر کے اجتماعات، مساجد اور امام بارگاہوں اور کھلے میدانوں میں نماز ِ عید ادا کرنے والوں کو نشانہ بنانے کی منصوبہ بندی کرسکتے ہیں اس لئے کہ دہشت گردوں نے رمضان المبارک میں دہشت گردی کے المناک واقعات سے ثابت کر دیا ہے کہ انہوں نے اپنی سرگرمیاں ترک نہیں کیں بلکہ انہیں تیز تر کر دیا ہے لہٰذا یہ صورتحال پوری قوم، حکومت، پولیس اور تمام دوسری ایجنسیوں سے اس امر کا تقاضا کرتی ہے کہ ان سب کو کسی بھی سانحہ سے نمٹنے کے لئے پوری طرح تیار رہنا چاہئے اسی میں ہماری فلاح و بقا ہے۔
Tuesday, August 31, 2010
یہ کرکٹرز کسی رعایت کے حقدار نہیں ہیں
سید شاہد اکرام سے
قوم کے لئے پہلے ہی پریشانیوں اور الجھنوں کی کمی نہیں تھی جس کے باعث وہ شرمسار رہتے تھے اب لندن میں پاکستانی کرکٹرز کے خلاف میچ فکسنگ کا ایک دلآزار اسکینڈل سامنے آیا ہے جس نے پوری قوم کے سرشرم سے جھکا دیئے ہیں۔ لارڈز کے گراؤنڈ میں پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان کھیلے جانے والے چوتھے اور آخری ٹیسٹ میچ کے دوران ایک برطانوی اخبار نے اس اسکینڈل کا انکشاف کرکے اہل پاکستان کے علاوہ پوری دنیا میں کرکٹ کے شائقین کو چونکا دیا ہے۔ اخبار نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستانی کرکٹ ٹیم کے کپتان سلمان بٹ، وکٹ کیپر کامران اکمل اور فاسٹ بولر محمد عامر اور محمد آصف سمیت سات کھلاڑی لارڈز ٹیسٹ میچ فکس کرنے میں ملوث ہیں میچ فکس کرانے کے لئے ایک لاکھ پچاس ہزار پونڈ وصول کرتے ہوئے ایک بک میکر کی فوٹیج بھی جاری کی گئی۔ایک اورفوٹیج میں اسی میچ فکسر کو ایڈوانس رقم دس ہزار پونڈ لیتے ہوئے دکھایا گیا۔ یہ رقم ایک جیکٹ میں رکھی گئی جو بعد میں ایک پاکستانی بولر کو پہنا دی گئی۔ اخبار کی رپورٹ کی روشنی میں سکاٹ لینڈ یارڈ نے چھاپہ مار کر بک میکر کوگرفتار کرلیا جسے بعدازاں ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔ اس نے اپنے بیان میں دعویٰ کیا کہ پاکستانی ٹیم کے سات کھلاڑی اسکی جیب میں ہیں اور کپتان سلمان بٹ ان کے رنگ لیڈر ہیں۔ سکاٹ لینڈ یارڈ کے اہلکاروں نے تحقیقات کے لئے چاروں نامزد کھلاڑیوں کے موبائل فون ضبط کرلئے ہیں اور ان کے سامان سے بھرے ہوئے دوبیگ اٹھا کر لے گئے ہیں۔پاکستانی کرکٹرز کے حوالے سے یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں، کرکٹ کا کھیل دنیا بھر میں مقبول ہے، لوگ اسے شوق سے دیکھتے ہیں اور اس میں حصہ لینے والے کھلاڑیوں کی پہچان رکھتے ہیں۔ پاکستانی ٹیم کے کھلاڑیوں نے جس حرکت کا ارتکاب کیا ہے اسکی حقیقت تو مکمل تحقیقات کے بعد ہی واضح ہوگی لیکن فوری طور پر پوری دنیا میں اس واقعے سے ان کی رسوائی ہوئی ہے اور پاکستان کی ساکھ کو دھچکا لگا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اعلیٰ حکومتی سطح پر اس کا شدید نوٹس لیا گیا ہے۔ صدر آصف علی زرداری نے چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ سے تفصیلی رپورٹ طلب کرلی ہے اور وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے شدید غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے لندن میں پاکستانی ہائی کمیشن کو واقعے کی مکمل تحقیقات کا حکم دیا ہے۔ پاکستان بھر میں قومی رہنماؤں اور عوام نے بھی شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ لندن میں مقیم پاکستانیوں نے جو اپنی ٹیم کی حوصلہ افزائی کیلئے ذوق و شوق سے گراؤنڈ میں جاتے تھے اتوار کو میچ کا بائیکاٹ کیا اور سٹیڈیم کے باہر پاکستانی ٹیم اور منتظمین کے خلاف مظاہرہ کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ماضی میں بھی پاکستانی کرکٹرز پر اس طرح کے الزامات لگتے رہے ہیں مگر اس مرتبہ سامنے آنے والا سکینڈل ملکی حالات اور تباہ کن سیلاب سے پیدا ہونے والی صورتحال کے پس منظر میں کئی گنا زیادہ تشویشناک ہے۔ اس سے بیرونی ملکوں میں کرپشن کے حوالے سے پاکستان کی ساکھ، جو پہلے بھی زیادہ اچھی نہیں تھی، مزید متاثر ہوگی۔سیلاب کے آغاز ہی میں امداد دینے کے معاملے میں بیرونی ملکوں اور بین الاقوامی امدادی اداروں میں تذبذب کی کیفیت ظاہر ہونے لگی تھی کیونکہ مستحقین میں امدادی رقوم اور سامان کی صحیح تقسیم کے حوالے سے وہ شکوک وشبہات کا شکار تھے۔ یہ اعتماد کے فقدان کا ہی نتیجہ ہے کہ 2005ء کے زلزلہ زدگان کی امداد کے لئے جس جوش و جذبے کا مظاہرہ کیا گیا تھا وہ اس مرتبہ کم ہی نظر آیا۔ پاکستان نے ان کا اعتماد بحال کرنے کے لئے کئی اقدامات کئے۔ بین الاقوامی شخصیات کو بلا کر انہیں اپنی آنکھوں سے سیلاب کی تباہی کے مناظر دکھائے اور سفارتی چینلز سے یقین دلایا کہ بین الاقوامی امداد کا ایک ایک پیسہ متاثرین کی امداد، بحالی اور تعمیرنو کے کاموں پر خرچ ہوگا۔ یہ عمل ابھی جاری ہے اور حکومت بڑی حد تک عالمی برادری کے شکوک و شبہات دور کرنے اور اسکی ہمدردیاں حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔ مگر کرکٹ کے سکینڈل نے اسے پھر مشکلات سے دوچار کر دیا ہے۔ پاکستانی کرکٹرز نے پیسے کے لالچ میں قومی اخلاقیات پر پھر سوالیہ نشان لگا دیا ہے اور یہ افسوسناک سوچ پھر ابھرنے لگی ہے کہ پاکستانیوں پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا۔ وہ بے قاعدگی اور بدعنوانی کے معاملے میں کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔ لارڈز ٹیسٹ میں اس کا بھرپور اظہار ہوا جس کے ثبوت بھی موجود ہیں اور دنیا کو دکھائے جا رہے ہیں۔ قوم خوش تھی کہ ایک نوجوان بولر اپنے فن کا لوہا منوا رہا ہے۔ اس نے اس ٹیسٹ کی پہلی اننگز میں یکے بعد دیگرے چھ وکٹیں حاصل کیں۔ پھر اللہ کے حضور اظہارتشکر کے لئے اسکے سربسجدہ ہونے کی تصاویر اخباروں میں شائع ہوئیں لیکن ساتھ ہی یہ سکینڈل سامنے آیا اور ٹیسٹ میچ میں پاکستانی ٹیم بری طرح ہارگئی۔ ہارجیت کھیل کا حصہ ہے۔ ایک ٹیم نے ہارنا اور ایک نے جیتنا ہوتا ہے۔ لوگ اسے دل کا روگ نہیں بناتے۔ مگر اس میچ میں باقاعدہ منصوبہ بندی اور پیسے لے کر ہارنے کا جو الزام تصویری ثبوت کے ساتھ لگایاگیا اس سے قومی ساکھ متاثر ہوئی ہے جوناقابل معافی ہے۔گرفتار ہونے والے بک میکر نے قومی کرکٹ ٹیم پر دولت کے لالچ کا الزام لگا کر پوری قوم کا کردار مسخ کرنے کی کوشش کی ہے جسے بھارتی میڈیا نے اچھال کر موقع پرستی کا بھرپور مظاہرہ کیا۔ بھارتی میڈیا کے مطابق بک میکر نے کہا کہ پاکستانی ٹیم میں بہت کم کھلاڑی ایسے ہیں جو ملک سے محبت اور کھیل سے دلچسپی رکھتے ہیں۔ زیادہ تر کھلاڑی محض پیسے اور عیش و عشرت کی خاطر ٹیم میں شامل ہوتے ہیں۔ اس نے ٹیم میں میچ فکسنگ کے علاوہ بھی دھوکہ بازی کی مثالیں دیں۔ کہا جاتا ہے کہ اس بک میکر کا کافی عرصہ سے پاکستانی کھلاڑیوں سے رابطہ تھا اور آسٹریلیا کے دورے میں ہونے والی شرمناک شکست میں بھی اسی کا ہاتھ تھا۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اخباری اطلاعات کے مطابق ون ڈے ٹیم کے کپتان شاہد آفریدی کو بعض کھلاڑیوں کے کردار کا علم ہو گیا تھا اور انہوں نے کرکٹ کے حکام کی توجہ اس میچ فکسر اور اس کے بھائی کے ساتھ ان کرکٹرز کے پراسرار رابطوں کی طرف دلا کر بروقت کوئی کارروائی کرنے کا مشورہ دیا تھا مگر کسی نے ان کی نہ سنی جس پر انہوں نے آسٹریلیا کے خلاف میچ ہارنے کے بعد مزید شرمندگی سے بچنے کے لئے ٹیسٹ کرکٹ ہی کو خیرباد کہہ دیا۔ اگر یہ سچ ہے تو تحقیقات کے بعد ان ذمہ دار حکام کے خلاف بھی کارروائی ہونی چاہئے جنہوں نے توجہ دلانے کے باوجود اس برائی کو جڑ سے اکھاڑنے میں کوئی دلچسپی نہیں لی۔لندن میں منظرعام پر آنے والے اس سکینڈل میں ملوث کرکٹرز اور ان کی سرگرمیوں سے چشم پوشی اختیار کرنے والے تمام لوگ قومی مجرم ہیں۔ انہوں نے ایسے وقت میں اس گھناؤنے کردار کا مظاہرہ کیا جب قوم سیلاب کی تباہ کاریوں کے حوالے سے بدترین صورتحال سے دوچارہے۔ ان لوگوں کو صرف پونڈز اور ڈالر کمانے سے دلچسپی ہے۔ اپنے ملک کی صورتحال سے کوئی واسطہ نہیں۔ حکومت کو چاہئے کہ اس واقعہ کی مکمل تحقیقات کرائے اور جو بھی مجرم ثابت ہو اسے کڑی سزا دی جائے تاکہ آئندہ کسی کو قوم کی عزت اچھالنے کی جرأت نہ ہو۔
Wednesday, August 25, 2010
ڈوبی ہوئی بستیوں میں نیا جہاں تعمیر کرنے کا عزم
سید شاہد اکرام سے
اگرچہ سیلابی ریلا سمندر کے قریب پہنچ چکا ہے مگر ایک جانب بحیرہ عرب کی بپھری ہوئی کیفیت کے باعث اس کے آخری منزل تک پہنچنے میں زیادہ وقت لگنے کا خدشہ ہے دوسری طرف خیبر پختون نخوا اور پنجاب میں بارشوں کا نیا سلسلہ بننے کے باعث نئے خطرات نظرآ رہے ہیں۔ بھارت میں دریاؤں کے بھرنے اور بارشوں کے آثار کے باعث ان میں اضافہ ہوگیا ہے۔ یوں ایک اور بڑے چیلنج کا امکان مسترد نہیں کیا جاسکتا۔ سیلاب کے حوالے سے عام تاثر یہ ہے کہ اگر پہلے سے تیاریاں کی جاتیں، پشتوں کی درستگی اور مرمت پر خاطر خواہ توجہ دی جاتی، پانی کی گزرگاہ میں تجاوزات قائم نہ ہونے دی جاتیں، ٹھیکوں کی منظوری میں کرپشن کی بجائے تعمیری معیار کو اہمیت دی جاتی اور ہنگامی حالات سے نمٹنے کے لئے تحصیل سے لیکر صوبائی و وفاقی سطح تک ایک موثر نظام موجود ہوتا تو اس بڑی تباہی سے بچا جاسکتا تھا جس کا ملک اور اس کے عوام کو سامنا کرنا پڑا ہے۔ اب ایک اور ریلا آنے کے امکانات ہیں تو اس کے لئے متعلقہ سرکاری اداروں، سماجی تنظیموں، سیاسی کارکنوں، عام رضاکاروں اور بین الاقوامی برادری کی مدد سے پیشگی تیاریوں کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ہی ہم وفاقی و صوبائی حکومتوں کو یہ مشورہ بھی دینا چاہیں گے کہ سیلاب زدہ علاقوں میں تعمیر نو کے لئے ابھی سے تیاریاں شروع کردی جائیں تاکہ پانی اترنے کے بعد لوگوں کو اس غیر محفوظ کیفیت کا پھر سامنا نہ کرنا پڑے جس سے اب تک اس نوع کی ہر آفت کے بعدواسطہ پڑا ہے۔ دنیا بھر میں یہ ہوتا ہے کہ کسی ابتلا کو اپنے عوام کی تقدیر کا لکھا سمجھ کر مستقبل میں بھی ایسے مصائب کا شکار ہونے کے لئے انہیں حالات کے رحم وکرم پر نہیں چھوڑا جاتا بلکہ ان کی بحالی کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔ ان کے دیہات، قصبوں اور شہروں کو نئی ضروریات کے مطابق تعمیر کیا جاتا ہے اور المیوں کو جدت و ترقی کے ایسے سنہری مواقع میں تبدیل کردیا جاتا ہے جن کے ذریعے نہ صرف ہر بستی کے لوگوں کو رہائش، خوراک، طبی سہولتوں، تعلیم، روزگار سمیت تمام بنیادی سہولتیں فراہم کرنا ممکن ہوتا ہے بلکہ ان کے لئے معاشی و سماجی ترقی کے بہتر امکانات پیدا کئے جاتے ہیں۔ ہمیں بھی اس تعمیر نو کے تمام مراحل کے لئے پیشگی تیاری کرنی چاہئے تاکہ جب تعمیر نو اور آباد کاری کا مرحلہ درپیش ہو تو منصوبہ سازی کا فقدان اور انتظامی نقائص آڑے نہ آئیں۔ اس مقصد کے لئے وفاقی، صوبائی، ضلعی اور تحصیل کی سطح پر کمیٹیاں بنا کر سرکاری و غیر سرکاری ماہرین، یونیورسٹیوں کے محققین اور مقامی عمائدین سے مشاورت کا اہتمام کیا جائے جو ملک اور صوبوں کی مجموعی ضروریات، ہر علاقے کے حالات، بستیوں کی مقامی ضروریات کو پیش نظر رکھ کر اپنی اپنی تجاویز دیں۔ پھر ان کے تمام پہلوؤں پر غور و فکر کرکے منصوبے تیار کئے جائیں۔ ہمہ گیر اجتماعی مشاورت سے بننے والے پلان یقیناً زیادہ بہتر ہونگے اور ان کی موجودگی سے غیر ملکی اداروں کے بعض شکوک و تحفظات کو دور کرنے میں بھی مدد ملے گی۔ اس ضمن میں مقامی حکومتوں کے انتخابات ٹالنے کی موجودہ حکمت عملی کی بجائے ان کے جلد قیام کی تدابیر معاون ہونگی۔اچھے عزائم کے ساتھ شفاف انداز میں کام کئے جائیں تو مقامی لوگوں کی بھر پور عملی مدد ملتی ہے جو کسی بھی منصوبے کی کامیابی کے لئے کلیدی اہمیت رکھتی ہے۔ جبکہ بین الاقوامی برادری بھی اس اعتماد کے ساتھ آگے آتی ہے کہ اس کی اعانت رائیگاں نہیں جائے گی۔ اس تاریخی حقیقت کو بہرحال نظر انداز نہیں کیا جانا چاہئے کہ جو قومیں اپنی ہمت، صلاحیت اور قوت بازو کی بجائے غیر ملکی امداد پر انحصار اور اس کے انتظار کو اپنا شعار بنا لیتی ہیں، وہ سست، کاہل اور بے عمل ہوجاتی ہیں۔ تجربات بتاتے ہیں کہ جب ملکوں کے لئے بیرونی امداد کے امکانات کم ہوئے تو انہوں نے خود کاوشیں کرکے نئے امکانات پیدا کئے۔ وفاقی حکومت کے 402 ارب روپے اپنے وسائل سے حاصل کرنے کے فیصلے کو اس حوالے سے ایک مثبت رویہ قرار دیا جاسکتا ہے بشرطیکہ یہ رقم زیادہ وسائل کے حامل طبقات سے وصول کی جائے اور ان طبقات کو سہولتیں دی جائیں جنہیں مہنگائی نے پہلے ہی مار رکھا ہے اور جو سیلاب کی تباہ کاریوں سے بھی سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ اس وقت آئی ایم ایف کے قرضے کی روکی گئی اقساط جاری کرانے کے لئے متعلقہ حکام کو نئی یقین دہانیاں کرانے کی جو اطلاعات ہیں، ان سے یوٹیلٹی بلوں میں اضافے کے نئے امکانات پیدا ہوئے تو لوگوں میں نظام کے خلاف رد عمل بڑھ سکتا ہے جبکہ ماہرین کے خیال میں نامناسب شرائط قبول کرنے کا نتیجہ معیشت کے ایک بار پھر بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے کنٹرول میں چلے جانے کی صورت میں ظاہر ہوگا۔ اس لئے اس سے اجتناب برتتے ہوئے وزیر اعظم گیلانی کے بیان کے مطابق امدادی سرگرمیوں کو موثر بنانے کے لئے صوبوں اور وفاق کو باہمی رابطے بڑھانے چاہئیں تاکہ سیلاب زدگان کو بہتر طور پر امداد فراہم کی جا سکے۔ اس سلسلے میں مرکزی و صوبائی حکومتوں کا حجم کم کرنے سمیت بچت کے اقدامات اگر اعلانات سے آگے بڑھ کر عملی طور پر نظر آئیں تو خاصی رقوم فراہم کی جاسکتی ہیں۔ غیر ملکی بینکوں میں رکھی گئی رقوم کی واپسی، بینکوں سے سیاسی بنیاد پر معاف کرائے گئے قرضوں کی وصولی جیسی تدابیر کے بھی اچھے اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ جب صورتحال یہ ہو کہ ایک جانب سیلاب کی تباہ کاریوں سے دو کروڑ کے لگ بھگ پاکستانی متاثر ہوئے ہوں، ہزاروں افراد جاں بحق ہوچکے ہوں، لاکھوں افراد بے گھر ہو کر امدادی کیمپوں یا کھلے آسمان تلے بنیادی ضروریات کے لئے ترس رہے ہوں، ٹھٹھہ سمیت کئی مقامات پر ہزاروں افراد محصور ہوں، متعدد بستیوں کے غرق ہونے کے مناظر ٹی وی چینلوں پر نظر آ رہے ہوں اور دوسری جانب حکومت اور اپوزیشن میں شامل اشرافیہ کے اللے تللے جاری ہوں تو لوگوں کے مصائب بڑھ کر غصے میں تبدیل ہونے لگتے ہیں۔ اس لئے ہماری درد مندانہ درخواست ہے کہ حکومت اور اپوزیشن سمیت تمام حلقے فوٹو سیشنوں اور بیان بازیوں کے ذریعے لوگوں کی مایوسی بڑھانے کی بجائے مل جل کر ایسے اقدامات کریں جن کے مثبت اثرات نظر بھی آئیں۔ متاثرین کے ریسکیو اور ریلیف پر فوری توجہ دینے کے ساتھ ساتھ ماہرین کی اعانت سے بحالی، آباد کاری اور تعمیر نو کے قلیل مدتی، وسط مدتی اور طویل مدتی منصوبوں کی تیاری کا کام ابھی سے شروع کردیں تاکہ پانی اترتے ہی ایک روڈ میپ کے تحت بستیوں کی تعمیر اس انداز سے ہو کہ وہاں رہنے والوں کو وہ سہولتیں بھی مل سکیں جو پہلے انہیں حاصل نہیں تھیں۔ ان کاموں کے لئے غیر ملکی امداد میں کمی یا تاخیر کو عذر بنانے کی بجائے سادگی، کفایت شعاری، حکومتی اخراجات میں کمی کے ساتھ اپنے وسائل، دست و بازو اور صلاحیتوں پر انحصار کیا جائے گا تو زیادہ بہتر تعمیر نو ہوگی۔ صرف اسی طریقے سے تباہ شدہ کھنڈرات پر نئی بستیاں، نئے شہر اور نیا پاکستان تعمیر ہوگا۔
بدحالی کا بڑا نشانہ ۔معیشت اور صحت
بدحالی کا بڑا نشانہ ۔معیشت اور صحت
سید شاہد اکرام سے
آسمان کی آنکھ اور کروڑوں انسان روزانہ اپنے ہم وطنوں کی بے بسی او بے کسی کے مناظر دیکھ رہے ہیں۔ لاکھوں ایسے ہیں جو امدادی کیمپوں یا دوسرے محفوظ مقامات پر کسمپرسی کے عالم میں زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ حکومتی محکمے اور امدادی ادارے اگرچہ کسی حد تک انہیں خوردونوش کی اشیا فراہم کر رہے ہیں مگر ان کی کئی لازمی ضروریات ایسی ہیں جوپوری نہیں ہو پارہیں۔ خصوصاً کیمپوں میں متاثرین کے لئے حفظان صحت کا کوئی موٴثر انتظام نہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ کئی طرح کے مہلک امراض نے انہیں اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور روزانہ بیسیوں افراد زندگی سے ہاتھ دھو رہے ہیں۔ مرنے والوں میں اکثریت کم سن بچوں کی ہے۔ اگرچہ سیلابی ریلا اب آخری مرحلے میں ہے بعض جگہ پانی اترنا شروع ہو گیا ہے مگر جہاں جہاں پانی کھڑا ہے اسے پوری طرح سوکھنے میں کم سے کم ایک مہینہ لگ سکتا ہے۔ یہ مہینہ متاثرین کے کیمپوں اور سیلاب زدہ شہروں پر بہت بھاری گزرے گا کیونکہ کھڑے پانی میں تعفن پیدا ہو رہا ہے جس میں چلنے پھرنے والے ہیضہ، ڈائریا، آنکھوں کی سوزش اور دوسری جان لیوا بیماریوں کا شکار ہورہے ہیں۔ اگرچہ حکومت اور امدادی اداروں نے متاثرہ علاقوں میں طبی ٹیمیں روانہ کرنے کے اعلانات کئے ہیں لیکن عملی طور پر متاثرین کے کیمپوں میں طبی عملہ ضرورت کے مقابلے میں بہت کم نظر آرہا ہے۔ مریضوں کی دیکھ بھال کا معقول انتظام نہیں۔ پھرادویات بھی نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ لوگ، خصوصاً بوڑھے اور بچے مررہے ہیں۔ وہ غذائیت کی کمی کا شکار ہیں ان کے جسم بیماریوں کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں۔ یہ تو سیلاب زدگان کے کیمپوں اور پناہ گاہوں کا حال ہے۔ آگے چل کر ان امراض کا دائرہ اور وسیع ہوسکتا ہے کیونکہ وبائی امراض پھیلے تو شہروں اور دیہات میں ان کی واپسی کے عمل کے دوران دوسرے لوگ بھی ان بیماریوں کا نشانہ بن سکتے ہیں جس سے صورتحال مزید خطرناک ہو جائے گی۔ سیلاب زدہ علاقوں میں صحت و صفائی کے مسائل پر وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کی صدارت میں ایک اعلیٰ سطحی اجلاس بلایا گیا ہے۔ توقع ہے کہ اس میں متاثرہ علاقوں میں وبائی امراض پھوٹنے سے روکنے اور لوگوں کو علاج معالجے کی سہولتیں فراہم کرنے کے لئے حکمت عملی وضع کی جائے گی۔ حکومت کو چاہئے کہ زبانی جمع خرچ کی بجائے ٹھوس حکمت عملی تیار کر کے اس پر سختی سے عمل بھی کرائے اور موجودہ مرحلے پر ہی متاثرین کے کیمپوں میں حفظان صحت کی سہولتوں کا بندوبست کرے تاکہ مستقبل میں بیماریوں کوپھیلنے سے روکا جا سکے۔سیلاب نے دوکروڑ عوام کی زندگی کو ہی تہ و بالا نہیں کیا، ملک کے پورے معاشی ڈھانچے کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ صحت کے ساتھ ساتھ اس قدرتی آفت کا سب سے بڑا نشانہ ملک کی معیشت بنی ہے۔ انفراسٹرکچر تباہ ہوگیا ہے۔ پلوں، سڑکوں، نہروں، ڈیمز، کارخانوں اور کئی دوسرے قیمتی اثاثوں کو بری طرح نقصان پہنچا۔ اربوں روپے کی کھڑی فصلیں سیلاب کی نذر ہوگئیں۔ سینکڑوں دیہات صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔اب تک جو تخمینے لگائے گئے ہیں ان کے مطابق ملک کو کھربوں روپے کا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ تلافی کیلئے بیرونی ممالک اور اداروں سے امداد حاصل کی جا رہی ہے۔ ایک حکومتی وفد آئی ایم ایف کے حکام سے رعائتیں لینے کے لئے بھی جا رہاہے۔ اندرون ملک عطیات جمع کئے جا رہے ہیں اورترقیاتی و غیرترقیاتی حکومتی اخراجات میں کٹوتی کر کے فنڈز سیلاب زدگان کی بحالی اور تعمیرنو کے کاموں کے لئے مختص کرنے کا اعلان کیا گیا ہے مگر نقصان اتنا زیادہ ہوا ہے کہ یہ سارے اقدامات ناکافی لگتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اور متعلقہ ادارے ماہرین معیشت کے صلاح مشورے سے ملک کی تعمیرنو کیلئے واضح سمت کا تعین کریں۔ اس کیلئے بڑے غوروفکر اورسب کو اعتماد میں لے کر چلنے کی ضرورت ہے۔ روڈ میپ تیار کرلیا جائے تو سیلاب سے پیدا ہونے والے چیلنج کا مقابلہ کرنا نسبتاً آسان ہو جائے گا۔اس کے علاوہ حکمرانوں اور سیاسی لیڈروں کو پرتعیش زندگی کو خیرباد کہہ کر سادگی اختیار کرنا ہوگی۔ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے اپنے قیمتی سوٹ اورٹائیاں نیلام کر کے حاصل شدہ رقم سیلاب زدگان کے فنڈ میں دینے کا اعلان کر کے ایک عملی مثال قائم کی ہے۔ دوسرے لیڈروں کو بھی ان کی تقلید کرنی چاہئے۔ لیڈرسادگی اختیار کریں گے تو عوام بھی ان کی پیروی کریں گے۔ اس طرح کفایت شعاری کا کلچر فروغ پائے گا جونہ صرف ملکی معیشت کے لئے فائدہ مند ہوگا بلکہ بڑھتی ہوئی مہنگائی پرقابو پانے میں بھی مدد ملے گی۔قوم اس وقت بہت بڑی ابتلا اور آزمائش کے دورسے گزر رہی ہے مگر افسوس، صدافسوس کہ ملک دشمن عناصر نے اس سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا، نہ اپنا وطیرہ بدلا۔ تخریب کاری اور دہشت گردی کا اب بھی دوردورہ ہے۔ وانا میں ایک نوعمر خودکش حملہ آور نے مسجد میں خود کو بارود سے اڑالیا جس سے ایک سابق ایم این اے اور عالم دین سمیت 30افراد شہید ہوگئے۔ اس نوجوان کو استعمال کرنے والے درندہ صفت مجرموں نے اللہ کے گھر کو بھی اپنے شیطانی کھیل سے مستثنیٰ نہیں کیا یہ واقعہ اس وقت رونما ہوا جب سابق ایم این اے مولانا نورمحمد مسجد میں درس قرآن دے رہے تھے اور ایک سونمازی درس میں شریک تھے۔ اسی روز کرم ایجنسی اور پشاور میں بھی دودھماکے کرائے گئے جن میں بارہ بے گناہ لوگ شہید ہوگئے۔ قوم اتنی بڑی افتاد سے دوچار ہے اور کچھ لوگ اس کی مدد کرنے کی بجائے اپنے مذموم اداروں کی تکمیل میں لگے ہوئے ہیں۔ انہیں کوئی احساس نہیں کہ لاکھوں انسان کس اذیت سے دوچار ہیں مگر یہ کام تو وہ لوگ کر رہے ہیں جن کا مشن ہی انسانوں کی جانیں لیناہے۔ان کے علاوہ بھی کتنے لوگ ہیں جو قتل وغارت اور اخلاقی جرائم میں مصروف ہیں۔ ان مجرموں کے ”کارنامے“ روزانہ اخبارات کی زینت بنتے ہیں۔ سرکاری محکموں کے عمال نے بھی ملک پر سیلاب کی صورت میں نازل ہونے والے اللہ کے عذاب سے کوئی سبق نہیں سیکھا اور بدعنوانیوں سے باز نہیں آئے۔ اتنی بڑی قیامت ٹوٹنے پر معاشرے کے اجتماعی رویوں میں بھی تبدیلی آنی چاہئے تھی مگر ایسا کچھ نہیں ہوا۔ سب کچھ پہلے کی طرح ہو رہا ہے۔ بازاروں میں عید کی خریداری زوروں پر ہے۔افطار کے نام پر دعوتیں اڑائی جا رہی ہیں۔ سیرگاہیں تفریح کے لئے آنے والوں سے بھری پڑی ہیں حالانکہ یہ قوم کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ اپنے اعمال اور رویوں پر نظرثانی کاوقت ہے۔ سب مستقبل کی منصوبہ بندی او رصورت گری میں شریک ہوں گے تو حالات میں بہتری اور تبدیلی آئے گی۔
Tuesday, August 24, 2010
مصیبت زد ہ عوام تبدیلی بھی چاہتے ہیں، بہتری بھی
مصیبت زد ہ عوام تبدیلی بھی چاہتے ہیں، بہتری بھی
سید شاہد اکرام سے
پاکستان کے عوام اس وقت جس بدترین صورتحال سے دوچار ہیں ان کے دل اور ذہن میں الاؤ بھڑک رہے ہیں لاوا پک رہا او ر وہ حالات میں تبدیلی چاہتے ہیں بہتری بھی۔ ملک ایک عرصہ سے ارضی و سماوی آفات کا شکار ہے۔ ایک مصیبت ختم نہیں ہوتی کہ دوسری نازل ہو جاتی ہے۔ پہلے دہشت گردی نے عوام کا جینا حرام کر رکھا تھا اور منتخب سیاسی حکومت بھی دہشت گردوں اور تخریب کاروں کا قلمع قمع کرنے کے حوالے سے اپنے اقدامات میں کامیاب نظر نہیں آ رہی تھی اور بے بسی کا شکار تھی۔ کتنی ہی انسانی جانیں اور قیمتی املاک دہشت گردوں کی بے رحمانہ کارروائیوں اور خودکش حملوں کا نشانہ بن گئیں۔ سیاسی جماعتوں نے اس آفت کا متحد ہو کر مقابلہ کرنے کی بجائے ایک دوسرے پر الزامات لگانے کا وطیرہ اختیار کیا جس سے بیرونی طاقتوں اور اداروں کو پاکستان مخالف پراپیگنڈے کا موقع مل گیا انہوں نے دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی مخلصانہ کوششوں کو کمزور اور بے اثر ثابت کرنے کیلئے ”ڈو مور“ کا راگ الاپنا شروع کر دیا۔ برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے تو بھارت کی سرزمین پر بیٹھ کر حکومت پاکستان کی مذمت کی اور اسے دہشت گردی پھیلانے کا ذمہ دار قرار دیا۔ دہشت گردی پر ابھی قابو نہیں پایا جا سکا تھا کہ مون سون کی تیز بارشوں کے نتیجے میں آنے والے تاریخ کے بدترین سیلاب نے پورے ملک کا انفراسٹرکچر تباہ کر دیا۔ دو کروڑ انسان اس آفت کا نشانہ بنے ہزاروں کی جانیں ضائع ہوئیں اور لاکھوں بے گھر ہو گئے۔ سیلاب نے ایک طرف ملک کے طول و عرض میں ناقابل تلافی نقصان پہنچایا تو دوسری طرف سول حکومت کے اہلکاروں کی انتظامی صلاحیتوں کو بے نقاب کر دیا۔ مدد کیلئے بے بس لوگوں کی چیخ و پکار اور احتجاجی مظاہرے قیامت کا منظر پیش کر رہے تھے اور میڈیا ان مناظر کی پوری دلسوزی کے ساتھ تصویر کشی کر رہا تھا اس دوران یہ حقیقت دنیا کے سامنے آئی کہ پاک فوج کے اہلکار کسی شور شرابے کے بغیر نہایت خاموشی مگر پوری تندہی سے اس صورتحال کا بڑی پامردی اور پیشہ ورانہ مہارت سے مقابلہ کر رہے ہیں۔ سول اہلکاروں کے مقابلے میں مصیبت زدہ لوگوں کو محفوظ مقامات پر پہنچانے اور ان میں امدادی سامان تقسیم کرنے کے معاملے میں ان کا طریقہ کار بہت شفاف اور اطمینان بخش تھا۔ سیلاب کی تباہ کاریوں پر قابو پانے میں حکومت کی ناقص کارکردگی کی اطلاعات اندرون اور بیرون ملک پھیلیں تو ہر طرف اس کی ساکھ پر انگلیاں اٹھائی جانے لگیں اس کا کردار قابل اعتراض اور متنازعہ ہو گیا جس کی وجہ سے بین الاقوامی امداد سیلاب سے ہونے والی تباہی کے تناسب سے نہیں آ رہی اور اندرون ملک بھی لوگ امدادی سرگرمیوں میں حصہ لینے سے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ اسی کیفیت میں میاں محمد نواز شریف کی طرف سے غیر جانبدار افراد پر مشتمل کمیٹی کی جو تجویز سامنے آئی وہ بھی سیاستدانوں اور حکومت کی کارکردگی پر عدم اعتماد کا واضح اظہار تھا۔ اس سارے پس منظر میں متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین کی طرف سے یہ جملہ سامنے آتا ہے کہ وہ کرپٹ سیاستدانوں کے خلاف مارشل لاء جیسے اقدام کی حمایت کرینگے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ کرپٹ جاگیرداروں سرداروں اور وڈیروں کے خلاف انقلاب فرانس کی طرز کے انقلاب کی ضرورت ہے۔ الطاف حسین کی طرف سے یہ کوئی تعجب کی بات نہیں لگتی لیکن یہ لمحہ فکریہ ہے کہ جس جماعت کی طرف سے ملک میں بہت سے مسائل کو ایجنسیوں کی کارکردگی قرار دیا جاتا تھا وہ اب ملک میں بڑھتی ہوئی بدعنوانی جاگیرداری اور سرداری کے خلاف فوج کی طرف سے کسی اقدام کی حمایت کو تیار ہے تو پوری قوم کو سوچنا چاہئے کہ کیا اب اسکے سوا کوئی اور آپشن نہیں ہے؟اس وقت ملک جن حالات سے دوچار ہے وہ یقینا پوری قوم کیلئے باعث تشویش ہیں مگر تاریخ کے تناظر میں سوچنا ہو گا کہ ماضی میں مارشل لاء لگتے رہے تو کیا واقعی ملک میں کوئی انقلاب آیا؟ عوام کے مسائل حل ہوئے؟ یہ سارے حقائق ہم سب کے سامنے ہیں۔ یہ مارشل لاء ہی تھا جس کے دور میں ملک دولخت ہوا۔ یہ مارشل لا ہی کی حکومتیں تھیں جن کے کئے کی سزا عوام آج بھی بھگت رہے ہیں اور انہیں کوس رہے ہیں۔ اس لئے حکومت یا سیاسی جماعتوں کو آل پارٹیز کانفرنس بلا کر ان تمام مسائل پر غور کرنا چاہئے جو قوم کیلئے سوہان روح بنے ہوئے ہیں یا جن کی ایم کیوایم کے قائد نے نشاندہی کی ہے پھر ملک اور قوم کیلئے جو بھی بہتر راستہ ہو اس پر عمل کیا جائے۔ ہم نہیں سمجھتے کہ اس وقت ملک میں جس طرح کے حالات اور جو چیلنجز ہیں ان کے پیش نظر فوج کا آنا دانشمندی ہے۔ بین الاقوامی طور پر بھی ایسے اقدام کو خوش آمدید نہیں کہا جائیگا کیونکہ بری سے بری جمہوریت بھی آمریت سے بہتر ہوتی ہے۔ اس وقت سیلاب نے تباہی مچا رکھی ہے اور پوری قوم کی توجہ اسی طرف مرکوز ہے۔ ایسی صورتحال میں تمام تر کوششیں انسانی جانیں بچانے کیلئے وقف ہونی چاہئیں اس کے بعد تعمیر نو کا مرحلہ آئیگا سیلاب نے بلاشبہ بہت نقصان پہنچایا ہے مگر ایسا دنیا کی تاریخ میں پہلی بار نہیں ہوا کئی اور جگہوں پر بھی ایسا ہوتا رہا ہے اور حکومتیں عوام کے ساتھ مل کر مشکلات کا مقابلہ کرتی رہی ہیں۔ یہ بھی درست ہے کہ ایسے مواقع پر عوام منتخب حکومت سے جس قسم کی توقعات رکھتے تھے وہ پوری نہیں ہوئیں اس میں کچھ حکمرانوں کا عمل دخل ہے اور کچھ طرز حکمرانی کا بھی۔ گڈ گورننس کسی بھی سطح پر کسی بھی صوبے میں نظر نہیں آ رہی سیالکوٹ میں دو نوجوانوں کے بہیمانہ قتل لاشوں کی بیحرمتی نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ میڈیا اسے بے نقاب نہ کرتا چیف جسٹس ازخود نوٹس نہ لیتے تو علاقے کے منتخب نمائندے پولیس اور صوبائی حکومت تو اسے خاموشی سے دباچکے تھے ۔ لیکن اس حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ 2008کے عام انتخابات میں اس وقت کی سیاسی صورتحال میڈیا کی آزادی اور سترھویں ترمیم کی وجہ سے پوری قوم نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔ جتنی سیاسی جماعتیں اس الیکشن میں کامیاب ہوئیں وہ تقریباً سب کی سب اس وقت وفاقی یا صوبائی حکومتوں میں شامل ہیں۔ ایم کیو ایم سمیت سب اقتدار میں شریک ہیں اگر حکومت ناکام ہے تو یہ ناکامی کسی ایک کی نہیں سب کی ہے۔ انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی مسلم لیگ (ن) ایم کیو ایم جے یو آئی اے این پی مسلم لیگ (فنکشنل) اور بعض دوسری پارٹیوں کے نمائندے عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوئے جن میں سے بیشتر نے بعد میں اقتدار میں شرکت کیلئے آپس میں سیاسی اتحاد قائم کر لئے اب اگر وفاق یا صوبوں میں حکومتیں اتحادیوں کی ہیں تو ان کا فرض ہے کہ سب مل کر عوام کے مسائل حل کریں اور سیلاب کی طرح کا جو بھی چیلنج سامنے آئے ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر اس کا مقابلہ کریں۔ اگر ایسا نہیں ہے تو یہ بھی سیاستدانوں کا ایک دوسرے پر عدم اعتماد کا مظاہرہ ہے۔ ایسی صورت میں مڈٹرم الیکشن کا مطالبہ کیا جاتا ہے جمہوریت کو پٹڑی سے اتارنے کا نہیں۔ مسائل جیسے بھی ہوں انہیں جمہوری انداز میں عوام کے ووٹوں سے منتخب نمائندوں کے ذریعے حل کیا جائے تو یہ حل پائیدار ہو گا اور قابل عمل اور قابل قبول بھی۔ لیکن خود منتخب حکمرانوں اور سیاسی جماعتوں کو بھی دیوار پہ لکھا پڑھنا چاہئے عوام اس وقت تک بدنظمی بدعنوانی ، افراتفری سے تنگ آچکے ہیں۔ اگر حکمرانوں نے اپنا رویہ نہیں بدلا تو تاریخ انہیں تبدیل کرسکتی ہے۔
Subscribe to:
Posts (Atom)