تحریر سید شاہد اکرام
سانحہ لاہور کے بعد پھر ایک مرتبہ جمعتہ المبارک کے روز کوئٹہ میں القدس ریلی میں شرکاء کی لاشیں اورخون کی بہتی ہوئی ندیوں اور انسانی جسموں کے چیتھڑے اڑتے دیکھ کر پوری قوم غم و الم کا مجسمہ بن گئی۔ ہر طرف لاشیں گرتی رہیں اور انسانی خون بہتا رہا۔ اس طرح ماہ ِ رمضان المبارک کے ایک مقدس دن کی شام بھی خون آلود ہوگئی جاں بحق ہونے والے بچوں ، مردوں اورخواتین کے لواحقین دھاڑیں مار مار کر روتے رہے اور خدا معلوم اس المیے کے باعث کتنے بچے یتیم اور کتنی خواتین بیوگی کے داغ جدائی کو سینے سے لگائے حسرت و یاس کا مجسمہ بن کر رہ جائیں گی۔ یہ سانحہ اس وقت رونما ہوا جب آئی ایس او کی جانب سے فلسطینیوں سے اظہار ِ یکجہتی کرتے ہوئے ہر سال کی طرح اس سال بھی ایک ریلی کا اہتمام کیا گیا جس میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ جب ریلی میزان چوک کے قریب پہنچی تو نامعلوم دہشت گرد نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا جس کے نتیجے میں 65 افراد شہید اور 197 کے لگ بھگ زخمی ہوگئے۔ بعض اطلاعات کے مطابق شہید اور زخمی ہونے والوں کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔ تمام ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذکردی گئی جہاں متعد د زخمیوں کی حالت نازک بیان کی جاتی ہے۔ اس سانحہ نے کوئٹہ میں قیامت صغریٰ کا منظر پیش کیا۔ شہر کے تمام تجارتی و کاروباری ادارے بند ہوگئے اور خودکش حملے کے بعد فائرنگ سے بھی متعدد افراد زخمی ہوئے۔ مشتعل نوجوانوں نے میزان چوک میں لگائے گئے سیلاب زدگان کے کیمپوں کو آگ لگا دی، متعدد گاڑیاں، عمارتیں نذرِ آتش ہوگئیں۔ شہریوں میں زبردست خوف و ہراس پایا جاتا ہے۔ کوئٹہ جانے والے تمام راستے بند کر دیئے گئے۔ کوئٹہ پولیس کے حکام کا کہنا ہے کہ ریلی کے شرکاء روکے جانے کے باوجود راستہ بدل کر مقررہ مقام کی بجائے بازار میں آگئے جس سے دہشت گردوں کو کھل کھیلنے اور اپنا منصوبہ مکمل کرنے کا موقع مل گیا۔ خفیہ اطلاع کے مطابق ریلی کے لئے مقرر کردہ راستے پر سخت حفاظتی اقدامات کئے گئے تھے لیکن راستہ تبدیل کرنے سے دہشت گردوں کو کھل کھیلنے کا موقع مل گیا۔ قوم کی اس سے بڑی بدقسمتی اور کیا ہوسکتی ہے کہ رمضان المبارک کے ماہ ِ مقدس میں لاہورکے بعد کوئٹہ میں بے گناہ انسانوں کا خون بہایا گیا اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے یوم شہادت اور کوئٹہ میں یوم القدس کے موقع پر دہشت گردوں نے خون کی ہولی سے پوری قوم کودل گرفتہ کر دیا۔صدر اور وزیراعظم نے سانحہ میں جاں بحق ہونے والوں کے ورثا سے اظہار ہمدردی کرتے ہوئے واقعہ کی فوری تحقیقات کا حکم دیا ہے۔یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ رمضان المبارک میں ایک طرف سیلاب کی تباہ کاریوں نے پورے ملک کو لپیٹ میں لے کر دو کروڑ سے زائد افراد کو متاثر اور لاکھوں کوبے گھر کرنے کے بعد قومی معیشت کو بھی متزلزل کرکے رکھ دیا ہے دوسری طرف یہ المناک واقعات اس امر کی غمازی کرتے ہیں کہ دہشت گرد ملک میں امن و استحکام نہیں چاہتے وہ ہماری یکجہتی کے درپے ہیں۔ وہ حکومت اورمعاشرے کو ہمیشہ منتشر اور مضطرب رکھنا چاہتے ہیں۔ انہیں مذہبی جذبات کا خیال ہے نہ مصیبت زدہ عوام کی کوئی پرواہ ہے۔ وہ آگ اور خون کا کھیل کھیلتے رہتے ہیں تاکہ حکومت سیلاب کی تباہ کاریوں اور ایسے سانحات کی وجہ سے معاشی استحکام کی طرف توجہ نہ دے سکے۔ اس طرح حکومت اور عوام کے لئے سیلاب زدگان کی بحالی، متاثرہ علاقوں کی تعمیر نو اور آئے روز کے بحرانوں کے باعث دہشت گردوں سے نمٹنا نہیں ہوسکے گا۔ دہشت گردوں کا ہدف یہ بھی ہے کہ ملک عدم استحکام کا شکار ہو،عوام مذہبی تقریبات کااہتمام کرنے سے گریز کریں اورایسے سانحات کے بعد مختلف مذہبی مکاتب ِ فکر کی طرف سے ایک دوسرے کے خلاف بدگمانی ، فرقہ واریت اور مذہبی محاذ آرائی شروع ہوجانے اور جان و مال کے عدم تحفظ کے باعث مذہبی، سماجی ، معاشرتی اور کاروباری تقریبات کااہتمام ممکن نہ رہے۔ اس پس منظر میں ہمیں دہشت گردوں کے ان مذموم عزائم کا ادراک کرتے ہوئے اس سے بالاتر ہو کر سوچنا چاہئے کہ ان عزائم سے کس طرح موثر اورنتیجہ خیز طور پر نمٹا جاسکتا ہے لہٰذا وسیع تر مشاورت کے ذریعے تمام مذہبی، سیاسی جماعتوں اورمختلف تنظیموں کے قائدین کو مل بیٹھ کر اس صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لئے اپنے آپ کو تیار کرنا ہوگا اوراس کے لئے ایک موثر لائحہ عمل تیار کرنے کے بعد اس پر تمام فکری صلاحیتوں کوبروئے کار لاتے ہوئے عملدرآمد کرنا ہوگا۔ اس حوالے سے قومی اسمبلی کے حالیہ اجلاس میں منظور کردہ قراردادیں بھی قومی اتحاد و یکجہتی کے لئے رہنما اصول کا درجہ رکھتی ہیں جن میں جمہوری نظام اورجمہوری اداروں کے استحکام، قومی سالمیت، یکجہتی اور بین الصوبائی ہم آہنگی پر زور دیا گیا ہے۔ ایوان نے آئین کی بالادستی، بنیادی حقوق کی ضمانت اور قانون کی حکمرانی کو بھی ناگزیر قرار دیا البتہ فوج کی طرف سے متاثرین کے لئے امدادی رقوم جمع کرنے کو غیرقانونی قرار دینے سے عسکری قیادت اور سیاسی قائدین کے درمیان غلط فہمی ملک میں انتشار کا باعث بن سکتی ہے۔ اس حوالے سے فوج کی امدادی سرگرمیوں سے خوفزدہ حکومتی اور اپوزیشن ارکان کی طرف سے قرارداد کی تیاری میں سرگرمی کا مظاہرہ کوئی اچھی بات نہیں۔ ہمیں ایسے بے بنیاد خدشات سے بالاتر ہوکر سوچنا چاہئے تاکہ دہشت گردوں کے عزائم سے مکمل اتحاد و یکجہتی کے ساتھ نمٹا جاسکے کیونکہ ابھی دہشت گردوں کی طرف سے مزید دھمکیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ عیدالفطر پر تجارتی و کاروباری مراکز میں خریداری کے لئے شہریوں کا ہجوم اور اجتماعات جمعتہ الوداع اور عیدالفطر پر مساجد اور امام بارگاہوں میں لاکھوں نمازیوں کی موجودگی کے پیش نظر ضروری ہے کہ ان کی حفاظت کے لئے حکومت ، پولیس اور دوسری ایجنسیاں موثر اقدامات کو یقینی بنائیں اور اس کے لئے بلاتاخیر ایکشن پلان تیار کیاجائے۔ عوام کی بھی یہ ذمہ اری ہے کہ وہ ایسے اجتماعات کے موقع پر اپنے گھروں کے آس پاس اجنبی اورمشتبہ افراد پر کڑی نظر رکھیں اور بروقت پولیس کو بھی مطلع کریں ہم اپنے ان کالموں میں متعدد مرتبہ یہ صائب مشورہ دے چکے ہیں کہ شہروں اوردیہات میں ماضی کے محلے داری نظام اور پنچایت سسٹم کو فروغ دیا جائے تاکہ محلے کے بزرگ اور ذمہ دارافراد ایسے اجنبی افراد کو فوراً پہچان سکیں۔ محض حکومتی حلقوں کی طرف سے ایسے المناک واقعات پر آئندہ شہریوں کے جان ومال کے تحفظ کی یقین دہانی پر مبنی روایتی بیانات مسئلے کا حل نہیں عوام میں ہر لمحہ جان و مال کے عدم تحفظ کا احساس بڑھتا جارہاہے۔ وہ سخت پریشان اور مایوس ہیں۔ رمضان المبارک کا مہینہ خون آلود ہونے کے باعث عیدالفطر ایسے مقدس مذہبی تہوار کی خوشیاں بھی ماند پڑ رہی ہیں اوریہ خدشہ بھی موجود ہے کہ دہشت گرد عیدالفطر کے اجتماعات، مساجد اور امام بارگاہوں اور کھلے میدانوں میں نماز ِ عید ادا کرنے والوں کو نشانہ بنانے کی منصوبہ بندی کرسکتے ہیں اس لئے کہ دہشت گردوں نے رمضان المبارک میں دہشت گردی کے المناک واقعات سے ثابت کر دیا ہے کہ انہوں نے اپنی سرگرمیاں ترک نہیں کیں بلکہ انہیں تیز تر کر دیا ہے لہٰذا یہ صورتحال پوری قوم، حکومت، پولیس اور تمام دوسری ایجنسیوں سے اس امر کا تقاضا کرتی ہے کہ ان سب کو کسی بھی سانحہ سے نمٹنے کے لئے پوری طرح تیار رہنا چاہئے اسی میں ہماری فلاح و بقا ہے۔
No comments:
Post a Comment