Tuesday, September 14, 2010

مقبوضہ کشمیر کی بگڑتی ہوئی صورتحال اور پاکستان



تحریر سید شاہد اکرام

مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے غاصبانہ قبضے کے خلاف ایجی ٹیشن نے مزید شدت اختیار کر لی ہے۔ پیر کو سری نگر سمیت کئی شہروں میں کرفیو کی سخت ترین پابندیوں کی پروا نہ کرتے ہوئے کشمیری نوجوان سڑکوں پر نکل آئے اور بھارت سے آزادی کے حق میں مظاہرے کئے۔ اس دوران 16پولیس سٹیشنوں پر حملے کئے گئے اور درجن بھر سرکاری عمارات کو آگ لگا دی گئی۔ بھارتی فوج نے جسے کشمیریوں کو کچلنے کیلئے وسیع اختیارات دئیے گئے ہیں کئی مقامات پر اندھا دھند فائرنگ کی جس سے 18افراد شہید اور سو سے زائد زخمی ہو گئے۔ مظاہرین نے اپنا پیچھا کرنے والے بھارتی فوجیوں پر سنگ باری کی جس سے ایک بھارتی اہلکار ہلاک اور کئی زخمی ہوئے۔ صورتحال کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ نئی دہلی میں بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ نے سلامتی امور سے متعلق کابینہ کی کمیٹی کا ہنگامی اجلاس بلایا جس میں مقبوضہ کشمیر کے حالات پر غور کیلئے کل جماعتی کانفرنس منعقد کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ یہ اجلاس بدھ کو ہو گا اور اس میں شرکت کیلئے بھارت کی تمام سیاسی پارٹیوں کو دعوت دی گئی ہے۔ بھارتی وزیر اعظم نے مسلح افواج کے اعلیٰ کمانڈروں کا بھی ایک اجلاس بلایا جس میں مقبوضہ کشمیر کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا اور کشمیری نوجوانوں کیلئے نوکریوں اور دیگر معاشی سہولتیں دینے کی پیشکش کی۔ کل جماعتی حریت کانفرنس کے رہنماؤں میر واعظ مولوی عمر فاروق اور یاسین ملک نے بھارتی وزیر اعظم کی یہ پیشکش فوری طور پر مسترد کر دی ہے اور کہا ہے کہ کشمیری نوجوان معاشی مراعات یا نوکریوں کیلئے نہیں بلکہ جموں و کشمیر کی آزادی کیلئے سروں پر کفن باندھ کر باہر نکلے ہیں۔ اب وہ آزادی کے سوا کوئی رعایت قبول نہیں کریں گے۔ مولوی عمر فاروق نے جن کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔ واضح کیا ہے کہ کشمیری عوام حق خودارادیت لے کے رہیں گے۔ بھارتی آئین کے تحت اس مسئلے کا کوئی حل نہیں نکل سکتا۔ حریت کانفرنس کے ایک اور اہم رہنما سید علی گیلانی نے بھی بھارت پر زور دیا ہے کہ وہ جبر و تشدد کے ذریعے کشمیر پر قبضہ برقرار رکھنے کی سوچ ترک کر دے۔ یاسین ملک نے بھارت کو خبردار کیا ہے کہ جموں و کشمیر کی آزادی کیلئے چلنے والی تحریک اس سے قبل پرانی نسل کے لوگوں کے پاس تھی۔ اب اس کی باگ ڈ ور نوجوان نسل نے سنبھال لی ہے اور وہ آزادی کے حصول کیلئے ہر قربانی دینے کا عزم رکھتے ہیں۔ معاشی مراعات کا لالچ انہیں اس راہ سے نہیں ہٹا سکتا۔حقیقت یہ ہے کہ ساری کشمیری قوم اس وقت بھارت کے جابرانہ تسلط سے آزادی کیلئے اٹھ کھڑی ہوئی ہے۔ ہم نے ان کالموں میں کل بھی احساس دلایا تھا کہ مقبوضہ کشمیر میں پچھلے چار ماہ سے جاری جدوجہد آزادی کی نئی لہر روز بروز طاقت پکڑ رہی ہے اور بھارت کیلئے اسے نظر انداز کرنا آسان نہیں ہو گا۔ ہماری اس سوچ کی تصدیق ایک بھارتی اخبار میں شائع ہونے والی اس سروے رپورٹ سے بھی ہوتی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ بھارت کے زیر اہتمام کشمیر کی تقریباً دو تہائی آبادی اپنے خطے کی آزادی چاہتی ہے۔ بھارتی اخبار کے مطابق 66فیصد کشمیری مکمل آزادی کے حق میں ہیں۔ 56فیصد نے مقبوضہ کشمیر کے حالیہ پر تشدد واقعات کا ذمہ دار بھارت کو قرار دیا ہے۔ اور 96فیصد نے بھارتی فوج کے ظالمانہ کردار کی مذمت کی ہے۔ یوں تو کشمیری عوام کی جدوجہد برصغیر کی تقسیم کے وقت سے جاری ہے مگر بھارت سے علیحدگی اور حق خودارادیت کے حصول کیلئے بیس سال قبل جو تحریک شروع کی گئی تھی صرف اس میں اب تک 47ہزار کشمیری اپنی جانیں قربان کر چکے ہیں۔ بھارت اگر سمجھتا ہے کہ اتنی قربانیاں دینے کے بعد بھی کشمیری عوام اس کا تسلط قبول کر لیں گے تو یہ اس کی سخت بھول ہے۔ بھارتی فوج اس وقت پوری وادی کشمیر میں ٹارگٹ کلنگ کر رہی ہے۔ سری نگر میں تو اسے حکم دیا گیا ہے کہ ”دہشت گردوں“ کو دیکھتے ہی گولی مار دی جائے۔ یہ قتل عام کا ایک طرح سے کھلا لائسنس ہے۔ یہاں تک کہ مساجد سے نماز کی ادائیگی کے بعد باہر نکلنے والے نوجوانوں کو بھی گولیوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ فوج کو اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی بھی کشمیری کو دہشت گرد قرار دے کر اسے جان سے مار سکتی ہے یا پکڑ سکتی ہے اور حکومت ایسے لوگوں کی جائیداد ضبط کر لیتی ہے۔ اب تو خود کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ اس ظلم کے خلاف آواز اٹھانے پر مجبور ہو گئے ہیں ۔ انہوں نے بھارتی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ فوج سے یہ ظالمانہ اختیارات واپس لئے جائیں۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ پچھلے تین ماہ میں بھارتی فوج کی کارروائیوں کے نتیجے میں 90سے زائد کشمیری مسلمان شہید ہو چکے ہیں۔ وادی میں حالات بے قابو ہو جانے پر عمر عبداللہ نے پیر کو اپنی کابینہ کا خصوصی اجلاس طلب کیا جو رات گئے تک جاری رہا۔ اس دوران انہوں نے بھارتی کانگریس کی صدر سونیا گاندھی کو بھی ٹیلی فون کیا اور حالات پر قابو پانے کیلئے ان کی مدد طلب کی۔مقبوضہ وادی سے آنے والی اطلاعات کے مطابق کشمیری مظاہرین نے کئی مقامات پر بھارتی پر چم نذر آتش کیا اس کی جگہ پاکستانی پرچم لہرا دیا اور پاکستان کے حق میں نعرے لگائے۔ ایسے موقعوں پر بھارت کو پاکستان پر الزام تراشی کا موقع مل جاتا ہے اور وہ پروپیگنڈہ شروع کر دیتا ہے کہ پاکستان مقبوضہ کشمیر میں مداخلت کر رہا ہے اور ”گھس بیٹھئے“ بھیج رہا ہے۔ مگر اس وقت جو صورتحال ہے اس میں کسی طرح بھی پاکستان ملوث نظر نہیں آتا۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ یہ تحریک وہاں یکایک شروع نہیں ہوئی۔ پچھلے بیس برس سے جاری ہے اور اس کی قیادت خود معروف کشمیری رہنما خصوصاً نوجوان نسل کر رہی ہے۔ دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ پاکستان خود اپنے مسائل میں گھرا ہوا ہے۔ وہ کوئی نیا محاذ کھولنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان مسئلہ کشمیر کا ایک فریق ہے۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق اس مسئلے کے حتمی حل میں اس کا ایک کردار ہے۔ وہ کشمیری عوام کو حق خودارادیت دلانے کی کمٹمنٹ کر چکا ہے جسے وہ کسی قیمت پر فراموش نہیں کر سکتا۔ ملک میں سیلاب کی تباہ کاریوں نے حکومت سمیت پوری قو م کی توجہ اپنی طرف مبذول کر رکھی ہے۔ لیکن مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی چیرہ دستیوں کو سرے سے نظر انداز کرنا ہماری کمٹمنٹ کے تقاضوں کے خلاف ہے دنیا کو یہ تو پتہ چل چکا ہے کہ وہاں چلنے والی آزادی کی تحریک کشمیری عوام کی اپنی تحریک ہے۔ پاکستان کی ”مداخلت“ کا نتیجہ نہیں۔ مگر یہ پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ وہ کشمیری عوام کے کاز سے یکجہتی کے اظہار کیلئے خود بھی عالمی برادری کے دروازے پر دستک دے۔ اس مقصد کیلئے وزارت خارجہ کا ہنگامی اجلاس بلا کر ساری صورتحال پر غور کر کے ایک موثر حکمت عملی تیار کرنا ہو گی کہ اس مسئلہ کو عالمی سطح پر کیسے اٹھایا جائے۔ دنیا بھر کے دارالحکومتوں میں متعین اپنے سفارتکاروں کو متحرک کرنا ہو گا۔ اس کے علاوہ قوم کو بھی اعتماد میں لینا ہو گا جو مقبوضہ کشمیر کی سنگین صورتحال کے حوالے سے فکر مند ہے۔

No comments:

Post a Comment