Friday, September 24, 2010

ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی سزا کیخلاف پاکستانی عوام کا ردعمل

تحریر سید شاہد اکرام
امریکی وفاقی عدالت نے پاکستانی نژاد ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو سات مختلف مقدمات میں 86سال قید کی سزا سنائی ہے۔ واضح رہے کہ امریکی عدالت نے افغانستان میں امریکی افسران کو قتل کرنے کی مبینہ کوشش پر عافیہ صدیقی پر فرد جرم عائد کی تھی عدالت کی طرف سے سنائی جانے والی سزا کے تحت بظاہر عافیہ صدیقی کی رہائی کے امکانات ختم ہوگئے ہیں مگر اپیل کی گنجائش موجود ہے۔ فیصلے کے بعد امریکہ میں مقیم پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد نے عدالت کے باہر احتجاجی مظاہرہ کیا تاہم عافیہ صدیقی کا کہنا تھا کہ کوئی خون خرابہ نہ کیا جائے۔ وہ فیصلہ سننے کے باوجود نہایت پر اعتماد اور مطمئن نظر آتی تھیں تاہم ان کا کہنا تھا کہ یہ سزا میری شکست نہیں۔ اس کے ذمہ دار پاکستان کے حکمران ہیں۔ یاد رہے کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے امریکہ سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی اورمبینہ طور پر 30مارچ 2003ء کو کراچی سے اسلام آباد جاتے ہوئے اپنے تین بچوں کے ہمراہ لاپتہ ہوگئیں۔ بگرام جیل میں ان کی موجودگی کا انکشاف ایک برطانوی صحافی نے کیا تھا جہاں سے انہیں 6اگست 2008ء کو امریکہ منتقل کر دیا گیا اور 19جنوری 2010ء کو ان کے خلاف مقدمات پر عدالتی کارروائی شروع ہوئی۔ 3فروری 2010ء کو جیوری کے ارکان نے انہیں مجرم قرار دیا اور عدالت نے 86سال کی سزائے قید سنا دی۔ یہ معاملہ صرف عافیہ صدیقی تک ہی محدود نہیں بلکہ مشرف دور میں کئی پاکستانیوں کو امریکہ کے مطالبے پر اس کے حوالے کر دیا گیا اور آج تک ان کے ورثا سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں۔ ایک پاکستانی خاتون کے خلاف امریکی عدالت کے فیصلے پر ہونے والے ردعمل کا اندازہ پاکستان کے متعدد سیاسی و مذہبی رہنماؤں اور عوامی نمائندوں کے تبصروں سے لگایا جاسکتا ہے اور اس حوالے سے یہ توقع رکھنا بے جا نہ ہوگا کہ حکومت پاکستان ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے لئے یقینا کوشش کرے گی اور ذمہ دار امریکی حلقے بھی اس ردعمل کے حوالے سے عدالتی فیصلے پر نظرثانی کرسکتے ہیں کیونکہ دہشت گردی کے خلاف دونوں ملکوں کے درمیان گہرے تعلقات اور بالخصوص پاکستان کی طرف سے فرنٹ لائن سٹیٹ کا کردار ادا کرنے کے حوالے سے امریکی عدالتی فیصلے پر نظرثانی کی توقع رکھی جاسکتی ہے۔ پاکستان اور امریکہ کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کا کوئی معاہدہ نہیں۔ اب حالات کا تقاضایہ ہے کہ حکومت اس سلسلے میں سرگرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے امریکہ سے قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ کرے تاکہ پاکستانی قیدیوں پر پاکستان میں مقدمات چلانے کے لئے انہیں واپس وطن لایا جاسکے۔سابق وزیراعظم میاں نواز شریف ،وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف، عمران خان، جنرل (ر) حمید گل، حافظ سعید، مولانا فضل الرحمن ،امیر جماعت اسلامی سید منور حسن، ایم کیو ایم کے الطاف حسین نے اس فیصلے کو کھلا ظلم قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت پاکستان کو خاموش بیٹھنے کی بجائے اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ جماعت اسلامی سمیت کئی مذہبی تنظیموں، علمائے کرام اور سپریم کورٹ بار نے جمعہ کویوم احتجاج منایا،جبکہ سنیٹر سلیم سیف اللہ نے کہا ہے کہ امریکی عدالت کا یہ فیصلہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے دورہ امریکہ منسوخ کر دیا ہے اور اسے پاکستانی قوم پر حملہ قرار دیا ہے۔ عوامی حلقوں کا تاثر یہ ہے کہ صدر زرداری کو خود امریکہ جاکر ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کی کوشش کرنی چاہئے کیونکہ امریکی صدر کو اس سزا کے خاتمے کا اختیار حاصل ہے، تاہم یہ امر افسوسناک ہے کہ قومی اسمبلی کا اجلاس ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے مسئلے پر بحث کے بغیر ملتوی کر دیا گیا۔ اگر اسمبلی اس مسئلے کو زیر بحث لاتی اور ارکان اسمبلی کو اس مسئلے پر اظہار خیال کا موقع دیا جاتا تو یہ عوامی جذبات کی ترجمانی ہوتی جو امریکہ کے لئے ایک پیغام ثابت ہوسکتی تھی۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی والدہ اور بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرکے جن خیالات کا اظہار کیا وہ نہ صرف ان کے بلکہ پوری پاکستانی قوم کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ آج ہمارا سر فخر سے بلند ہوگیا ہے ۔ اس نے انتہائی تشدد کے خلاف بھی سر نہیں جھکایا،پاکستان کے تمام سیاستدانوں کو اس کا حساب دینا ہوگا۔ عافیہ صدیقی کی والدہ کا کہنا ہے کہ ہم صبر و تحمل سے کام لیں گے اور ہماری بیٹی جلد رہا ہو کر ہمارے پاس ہوگی ہماری بیٹی پر امریکیوں پر فائرنگ کرنے کا الزام غلط ہے۔ یاد رہے کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں امریکہ کے حوالے کیا گیا تھا اوران کے تین بچے بھی لاپتہ ہوگئے تھے۔ اس حوالے سے ملک کے متعدد سیاسی اور مذہبی قائدین اور عوامی حلقوں کا یہ مطالبہ رہا ہے کہ سابق صدرکو وطن واپس لاکر ان پر غداری کا مقدمہ چلایا جائے۔ حکومت کو بہرحال اس عوامی ردعمل کو نظرانداز نہیں کرنا چاہئے اور پاک امریکہ تعلقات کے حوالے سے صدر امریکہ کی توجہ پاکستانی عوام کے جذبات اور ردعمل کی طرف مبذول کرانی چاہئے۔ جہاں تک سیاسی و مذہبی جماعتوں کی طرف سے احتجاجی مظاہروں اور ریلیوں کا تعلق ہے یہ ان کا قانونی حق ہے لیکن یہ بات بطور خاص پیش نظر رہنی چاہئے کہ ماضی کی طرح احتجاجی مظاہروں کے دوران نجی و سرکاری املاک کی تباہی اور توڑ پھوڑ سے مکمل اجتناب کیا جانا چاہئے کیونکہ اس سے پوری قومی زندگی متاثر ہوتی ہے اور اپنے ہی شہریوں کو بھاری نقصان اٹھانا پڑتا ہے، اس بات پر بھی کڑی نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ ان مظاہروں میں تخریب کار، دہشت گرد اور پاکستان دشمن عناصر کو شامل ہونے اور کھل کھیلنے کا موقع نہ ملے۔ تمام مذہبی اور سیاسی جماعتوں کو مظاہروں میں شریک ہونے والے افراد پر کڑی نظر رکھنا ہوگی۔ حکومت پاکستان کو بھی سیاسی و سفارتی سطح پر امریکی حکام سے رابطے کرکے انہیں پاکستانی عوام کے جذبات سے آگاہ کرنا ہوگا۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو سنائی جانے والی سزا کے خلاف پاکستان کے اپوزیشن ،سیاسی و مذہبی حلقے ہی سراپا احتجاج نہیں بلکہ بعض حکومتی حلقوں کی طرف سے بھی ناخوشگوار ردعمل سامنے آیا ہے۔ گورنر پنجاب سلمان تاثیر کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے مسئلے پر پوری قوم پریشان ہے اور امریکہ سے رہائی کا مطالبہ کرتی ہے ۔ پی پی پی پنجاب کے صدر اور متعدد دوسرے رہنماؤں کا ردعمل پاکستانی عوام کے جذبات کی نہ صرف ترجمانی کرتا ہے بلکہ امریکی عدالت اور حکام کی خصوصی توجہ چاہتا ہے۔ قوم یہ توقع رکھنے میں حق بجانب ہے کہ امریکہ کا ایک اتحادی ہونے اور دہشت گردی کے خلاف اس کا بھرپور ساتھ دینے کے نتیجے میں اعلیٰ امریکی عدالتیں اور بالخصوص اختیارات کے حوالے سے صدر اوباما کو اپنے صوابدیدی اختیارات استعمال کرتے ہوئے عافیہ صدیقی کو رہا کر دینا چاہئے تاکہ پاک امریکہ تعلقات میں ایک خوشگوار اور مثبت پیش رفت کا احساس اجاگر ہو۔

No comments:

Post a Comment