Friday, September 24, 2010

ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی سزا کیخلاف پاکستانی عوام کا ردعمل

تحریر سید شاہد اکرام
امریکی وفاقی عدالت نے پاکستانی نژاد ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو سات مختلف مقدمات میں 86سال قید کی سزا سنائی ہے۔ واضح رہے کہ امریکی عدالت نے افغانستان میں امریکی افسران کو قتل کرنے کی مبینہ کوشش پر عافیہ صدیقی پر فرد جرم عائد کی تھی عدالت کی طرف سے سنائی جانے والی سزا کے تحت بظاہر عافیہ صدیقی کی رہائی کے امکانات ختم ہوگئے ہیں مگر اپیل کی گنجائش موجود ہے۔ فیصلے کے بعد امریکہ میں مقیم پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد نے عدالت کے باہر احتجاجی مظاہرہ کیا تاہم عافیہ صدیقی کا کہنا تھا کہ کوئی خون خرابہ نہ کیا جائے۔ وہ فیصلہ سننے کے باوجود نہایت پر اعتماد اور مطمئن نظر آتی تھیں تاہم ان کا کہنا تھا کہ یہ سزا میری شکست نہیں۔ اس کے ذمہ دار پاکستان کے حکمران ہیں۔ یاد رہے کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے امریکہ سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی اورمبینہ طور پر 30مارچ 2003ء کو کراچی سے اسلام آباد جاتے ہوئے اپنے تین بچوں کے ہمراہ لاپتہ ہوگئیں۔ بگرام جیل میں ان کی موجودگی کا انکشاف ایک برطانوی صحافی نے کیا تھا جہاں سے انہیں 6اگست 2008ء کو امریکہ منتقل کر دیا گیا اور 19جنوری 2010ء کو ان کے خلاف مقدمات پر عدالتی کارروائی شروع ہوئی۔ 3فروری 2010ء کو جیوری کے ارکان نے انہیں مجرم قرار دیا اور عدالت نے 86سال کی سزائے قید سنا دی۔ یہ معاملہ صرف عافیہ صدیقی تک ہی محدود نہیں بلکہ مشرف دور میں کئی پاکستانیوں کو امریکہ کے مطالبے پر اس کے حوالے کر دیا گیا اور آج تک ان کے ورثا سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں۔ ایک پاکستانی خاتون کے خلاف امریکی عدالت کے فیصلے پر ہونے والے ردعمل کا اندازہ پاکستان کے متعدد سیاسی و مذہبی رہنماؤں اور عوامی نمائندوں کے تبصروں سے لگایا جاسکتا ہے اور اس حوالے سے یہ توقع رکھنا بے جا نہ ہوگا کہ حکومت پاکستان ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے لئے یقینا کوشش کرے گی اور ذمہ دار امریکی حلقے بھی اس ردعمل کے حوالے سے عدالتی فیصلے پر نظرثانی کرسکتے ہیں کیونکہ دہشت گردی کے خلاف دونوں ملکوں کے درمیان گہرے تعلقات اور بالخصوص پاکستان کی طرف سے فرنٹ لائن سٹیٹ کا کردار ادا کرنے کے حوالے سے امریکی عدالتی فیصلے پر نظرثانی کی توقع رکھی جاسکتی ہے۔ پاکستان اور امریکہ کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کا کوئی معاہدہ نہیں۔ اب حالات کا تقاضایہ ہے کہ حکومت اس سلسلے میں سرگرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے امریکہ سے قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ کرے تاکہ پاکستانی قیدیوں پر پاکستان میں مقدمات چلانے کے لئے انہیں واپس وطن لایا جاسکے۔سابق وزیراعظم میاں نواز شریف ،وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف، عمران خان، جنرل (ر) حمید گل، حافظ سعید، مولانا فضل الرحمن ،امیر جماعت اسلامی سید منور حسن، ایم کیو ایم کے الطاف حسین نے اس فیصلے کو کھلا ظلم قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت پاکستان کو خاموش بیٹھنے کی بجائے اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ جماعت اسلامی سمیت کئی مذہبی تنظیموں، علمائے کرام اور سپریم کورٹ بار نے جمعہ کویوم احتجاج منایا،جبکہ سنیٹر سلیم سیف اللہ نے کہا ہے کہ امریکی عدالت کا یہ فیصلہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے دورہ امریکہ منسوخ کر دیا ہے اور اسے پاکستانی قوم پر حملہ قرار دیا ہے۔ عوامی حلقوں کا تاثر یہ ہے کہ صدر زرداری کو خود امریکہ جاکر ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کی کوشش کرنی چاہئے کیونکہ امریکی صدر کو اس سزا کے خاتمے کا اختیار حاصل ہے، تاہم یہ امر افسوسناک ہے کہ قومی اسمبلی کا اجلاس ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے مسئلے پر بحث کے بغیر ملتوی کر دیا گیا۔ اگر اسمبلی اس مسئلے کو زیر بحث لاتی اور ارکان اسمبلی کو اس مسئلے پر اظہار خیال کا موقع دیا جاتا تو یہ عوامی جذبات کی ترجمانی ہوتی جو امریکہ کے لئے ایک پیغام ثابت ہوسکتی تھی۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی والدہ اور بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرکے جن خیالات کا اظہار کیا وہ نہ صرف ان کے بلکہ پوری پاکستانی قوم کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ آج ہمارا سر فخر سے بلند ہوگیا ہے ۔ اس نے انتہائی تشدد کے خلاف بھی سر نہیں جھکایا،پاکستان کے تمام سیاستدانوں کو اس کا حساب دینا ہوگا۔ عافیہ صدیقی کی والدہ کا کہنا ہے کہ ہم صبر و تحمل سے کام لیں گے اور ہماری بیٹی جلد رہا ہو کر ہمارے پاس ہوگی ہماری بیٹی پر امریکیوں پر فائرنگ کرنے کا الزام غلط ہے۔ یاد رہے کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں امریکہ کے حوالے کیا گیا تھا اوران کے تین بچے بھی لاپتہ ہوگئے تھے۔ اس حوالے سے ملک کے متعدد سیاسی اور مذہبی قائدین اور عوامی حلقوں کا یہ مطالبہ رہا ہے کہ سابق صدرکو وطن واپس لاکر ان پر غداری کا مقدمہ چلایا جائے۔ حکومت کو بہرحال اس عوامی ردعمل کو نظرانداز نہیں کرنا چاہئے اور پاک امریکہ تعلقات کے حوالے سے صدر امریکہ کی توجہ پاکستانی عوام کے جذبات اور ردعمل کی طرف مبذول کرانی چاہئے۔ جہاں تک سیاسی و مذہبی جماعتوں کی طرف سے احتجاجی مظاہروں اور ریلیوں کا تعلق ہے یہ ان کا قانونی حق ہے لیکن یہ بات بطور خاص پیش نظر رہنی چاہئے کہ ماضی کی طرح احتجاجی مظاہروں کے دوران نجی و سرکاری املاک کی تباہی اور توڑ پھوڑ سے مکمل اجتناب کیا جانا چاہئے کیونکہ اس سے پوری قومی زندگی متاثر ہوتی ہے اور اپنے ہی شہریوں کو بھاری نقصان اٹھانا پڑتا ہے، اس بات پر بھی کڑی نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ ان مظاہروں میں تخریب کار، دہشت گرد اور پاکستان دشمن عناصر کو شامل ہونے اور کھل کھیلنے کا موقع نہ ملے۔ تمام مذہبی اور سیاسی جماعتوں کو مظاہروں میں شریک ہونے والے افراد پر کڑی نظر رکھنا ہوگی۔ حکومت پاکستان کو بھی سیاسی و سفارتی سطح پر امریکی حکام سے رابطے کرکے انہیں پاکستانی عوام کے جذبات سے آگاہ کرنا ہوگا۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو سنائی جانے والی سزا کے خلاف پاکستان کے اپوزیشن ،سیاسی و مذہبی حلقے ہی سراپا احتجاج نہیں بلکہ بعض حکومتی حلقوں کی طرف سے بھی ناخوشگوار ردعمل سامنے آیا ہے۔ گورنر پنجاب سلمان تاثیر کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے مسئلے پر پوری قوم پریشان ہے اور امریکہ سے رہائی کا مطالبہ کرتی ہے ۔ پی پی پی پنجاب کے صدر اور متعدد دوسرے رہنماؤں کا ردعمل پاکستانی عوام کے جذبات کی نہ صرف ترجمانی کرتا ہے بلکہ امریکی عدالت اور حکام کی خصوصی توجہ چاہتا ہے۔ قوم یہ توقع رکھنے میں حق بجانب ہے کہ امریکہ کا ایک اتحادی ہونے اور دہشت گردی کے خلاف اس کا بھرپور ساتھ دینے کے نتیجے میں اعلیٰ امریکی عدالتیں اور بالخصوص اختیارات کے حوالے سے صدر اوباما کو اپنے صوابدیدی اختیارات استعمال کرتے ہوئے عافیہ صدیقی کو رہا کر دینا چاہئے تاکہ پاک امریکہ تعلقات میں ایک خوشگوار اور مثبت پیش رفت کا احساس اجاگر ہو۔

Tuesday, September 14, 2010

مقبوضہ کشمیر کی بگڑتی ہوئی صورتحال اور پاکستان



تحریر سید شاہد اکرام

مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے غاصبانہ قبضے کے خلاف ایجی ٹیشن نے مزید شدت اختیار کر لی ہے۔ پیر کو سری نگر سمیت کئی شہروں میں کرفیو کی سخت ترین پابندیوں کی پروا نہ کرتے ہوئے کشمیری نوجوان سڑکوں پر نکل آئے اور بھارت سے آزادی کے حق میں مظاہرے کئے۔ اس دوران 16پولیس سٹیشنوں پر حملے کئے گئے اور درجن بھر سرکاری عمارات کو آگ لگا دی گئی۔ بھارتی فوج نے جسے کشمیریوں کو کچلنے کیلئے وسیع اختیارات دئیے گئے ہیں کئی مقامات پر اندھا دھند فائرنگ کی جس سے 18افراد شہید اور سو سے زائد زخمی ہو گئے۔ مظاہرین نے اپنا پیچھا کرنے والے بھارتی فوجیوں پر سنگ باری کی جس سے ایک بھارتی اہلکار ہلاک اور کئی زخمی ہوئے۔ صورتحال کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ نئی دہلی میں بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ نے سلامتی امور سے متعلق کابینہ کی کمیٹی کا ہنگامی اجلاس بلایا جس میں مقبوضہ کشمیر کے حالات پر غور کیلئے کل جماعتی کانفرنس منعقد کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ یہ اجلاس بدھ کو ہو گا اور اس میں شرکت کیلئے بھارت کی تمام سیاسی پارٹیوں کو دعوت دی گئی ہے۔ بھارتی وزیر اعظم نے مسلح افواج کے اعلیٰ کمانڈروں کا بھی ایک اجلاس بلایا جس میں مقبوضہ کشمیر کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا اور کشمیری نوجوانوں کیلئے نوکریوں اور دیگر معاشی سہولتیں دینے کی پیشکش کی۔ کل جماعتی حریت کانفرنس کے رہنماؤں میر واعظ مولوی عمر فاروق اور یاسین ملک نے بھارتی وزیر اعظم کی یہ پیشکش فوری طور پر مسترد کر دی ہے اور کہا ہے کہ کشمیری نوجوان معاشی مراعات یا نوکریوں کیلئے نہیں بلکہ جموں و کشمیر کی آزادی کیلئے سروں پر کفن باندھ کر باہر نکلے ہیں۔ اب وہ آزادی کے سوا کوئی رعایت قبول نہیں کریں گے۔ مولوی عمر فاروق نے جن کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔ واضح کیا ہے کہ کشمیری عوام حق خودارادیت لے کے رہیں گے۔ بھارتی آئین کے تحت اس مسئلے کا کوئی حل نہیں نکل سکتا۔ حریت کانفرنس کے ایک اور اہم رہنما سید علی گیلانی نے بھی بھارت پر زور دیا ہے کہ وہ جبر و تشدد کے ذریعے کشمیر پر قبضہ برقرار رکھنے کی سوچ ترک کر دے۔ یاسین ملک نے بھارت کو خبردار کیا ہے کہ جموں و کشمیر کی آزادی کیلئے چلنے والی تحریک اس سے قبل پرانی نسل کے لوگوں کے پاس تھی۔ اب اس کی باگ ڈ ور نوجوان نسل نے سنبھال لی ہے اور وہ آزادی کے حصول کیلئے ہر قربانی دینے کا عزم رکھتے ہیں۔ معاشی مراعات کا لالچ انہیں اس راہ سے نہیں ہٹا سکتا۔حقیقت یہ ہے کہ ساری کشمیری قوم اس وقت بھارت کے جابرانہ تسلط سے آزادی کیلئے اٹھ کھڑی ہوئی ہے۔ ہم نے ان کالموں میں کل بھی احساس دلایا تھا کہ مقبوضہ کشمیر میں پچھلے چار ماہ سے جاری جدوجہد آزادی کی نئی لہر روز بروز طاقت پکڑ رہی ہے اور بھارت کیلئے اسے نظر انداز کرنا آسان نہیں ہو گا۔ ہماری اس سوچ کی تصدیق ایک بھارتی اخبار میں شائع ہونے والی اس سروے رپورٹ سے بھی ہوتی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ بھارت کے زیر اہتمام کشمیر کی تقریباً دو تہائی آبادی اپنے خطے کی آزادی چاہتی ہے۔ بھارتی اخبار کے مطابق 66فیصد کشمیری مکمل آزادی کے حق میں ہیں۔ 56فیصد نے مقبوضہ کشمیر کے حالیہ پر تشدد واقعات کا ذمہ دار بھارت کو قرار دیا ہے۔ اور 96فیصد نے بھارتی فوج کے ظالمانہ کردار کی مذمت کی ہے۔ یوں تو کشمیری عوام کی جدوجہد برصغیر کی تقسیم کے وقت سے جاری ہے مگر بھارت سے علیحدگی اور حق خودارادیت کے حصول کیلئے بیس سال قبل جو تحریک شروع کی گئی تھی صرف اس میں اب تک 47ہزار کشمیری اپنی جانیں قربان کر چکے ہیں۔ بھارت اگر سمجھتا ہے کہ اتنی قربانیاں دینے کے بعد بھی کشمیری عوام اس کا تسلط قبول کر لیں گے تو یہ اس کی سخت بھول ہے۔ بھارتی فوج اس وقت پوری وادی کشمیر میں ٹارگٹ کلنگ کر رہی ہے۔ سری نگر میں تو اسے حکم دیا گیا ہے کہ ”دہشت گردوں“ کو دیکھتے ہی گولی مار دی جائے۔ یہ قتل عام کا ایک طرح سے کھلا لائسنس ہے۔ یہاں تک کہ مساجد سے نماز کی ادائیگی کے بعد باہر نکلنے والے نوجوانوں کو بھی گولیوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ فوج کو اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی بھی کشمیری کو دہشت گرد قرار دے کر اسے جان سے مار سکتی ہے یا پکڑ سکتی ہے اور حکومت ایسے لوگوں کی جائیداد ضبط کر لیتی ہے۔ اب تو خود کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ اس ظلم کے خلاف آواز اٹھانے پر مجبور ہو گئے ہیں ۔ انہوں نے بھارتی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ فوج سے یہ ظالمانہ اختیارات واپس لئے جائیں۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ پچھلے تین ماہ میں بھارتی فوج کی کارروائیوں کے نتیجے میں 90سے زائد کشمیری مسلمان شہید ہو چکے ہیں۔ وادی میں حالات بے قابو ہو جانے پر عمر عبداللہ نے پیر کو اپنی کابینہ کا خصوصی اجلاس طلب کیا جو رات گئے تک جاری رہا۔ اس دوران انہوں نے بھارتی کانگریس کی صدر سونیا گاندھی کو بھی ٹیلی فون کیا اور حالات پر قابو پانے کیلئے ان کی مدد طلب کی۔مقبوضہ وادی سے آنے والی اطلاعات کے مطابق کشمیری مظاہرین نے کئی مقامات پر بھارتی پر چم نذر آتش کیا اس کی جگہ پاکستانی پرچم لہرا دیا اور پاکستان کے حق میں نعرے لگائے۔ ایسے موقعوں پر بھارت کو پاکستان پر الزام تراشی کا موقع مل جاتا ہے اور وہ پروپیگنڈہ شروع کر دیتا ہے کہ پاکستان مقبوضہ کشمیر میں مداخلت کر رہا ہے اور ”گھس بیٹھئے“ بھیج رہا ہے۔ مگر اس وقت جو صورتحال ہے اس میں کسی طرح بھی پاکستان ملوث نظر نہیں آتا۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ یہ تحریک وہاں یکایک شروع نہیں ہوئی۔ پچھلے بیس برس سے جاری ہے اور اس کی قیادت خود معروف کشمیری رہنما خصوصاً نوجوان نسل کر رہی ہے۔ دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ پاکستان خود اپنے مسائل میں گھرا ہوا ہے۔ وہ کوئی نیا محاذ کھولنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان مسئلہ کشمیر کا ایک فریق ہے۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق اس مسئلے کے حتمی حل میں اس کا ایک کردار ہے۔ وہ کشمیری عوام کو حق خودارادیت دلانے کی کمٹمنٹ کر چکا ہے جسے وہ کسی قیمت پر فراموش نہیں کر سکتا۔ ملک میں سیلاب کی تباہ کاریوں نے حکومت سمیت پوری قو م کی توجہ اپنی طرف مبذول کر رکھی ہے۔ لیکن مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی چیرہ دستیوں کو سرے سے نظر انداز کرنا ہماری کمٹمنٹ کے تقاضوں کے خلاف ہے دنیا کو یہ تو پتہ چل چکا ہے کہ وہاں چلنے والی آزادی کی تحریک کشمیری عوام کی اپنی تحریک ہے۔ پاکستان کی ”مداخلت“ کا نتیجہ نہیں۔ مگر یہ پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ وہ کشمیری عوام کے کاز سے یکجہتی کے اظہار کیلئے خود بھی عالمی برادری کے دروازے پر دستک دے۔ اس مقصد کیلئے وزارت خارجہ کا ہنگامی اجلاس بلا کر ساری صورتحال پر غور کر کے ایک موثر حکمت عملی تیار کرنا ہو گی کہ اس مسئلہ کو عالمی سطح پر کیسے اٹھایا جائے۔ دنیا بھر کے دارالحکومتوں میں متعین اپنے سفارتکاروں کو متحرک کرنا ہو گا۔ اس کے علاوہ قوم کو بھی اعتماد میں لینا ہو گا جو مقبوضہ کشمیر کی سنگین صورتحال کے حوالے سے فکر مند ہے۔

Sunday, September 5, 2010

استحکام پاکستان کے دشمن ہمیں للکاررہے ہیں

تحریر سید شاہد اکرام






سانحہ لاہور کے بعد پھر ایک مرتبہ جمعتہ المبارک کے روز کوئٹہ میں القدس ریلی میں شرکاء کی لاشیں اورخون کی بہتی ہوئی ندیوں اور انسانی جسموں کے چیتھڑے اڑتے دیکھ کر پوری قوم غم و الم کا مجسمہ بن گئی۔ ہر طرف لاشیں گرتی رہیں اور انسانی خون بہتا رہا۔ اس طرح ماہ ِ رمضان المبارک کے ایک مقدس دن کی شام بھی خون آلود ہوگئی جاں بحق ہونے والے بچوں ، مردوں اورخواتین کے لواحقین دھاڑیں مار مار کر روتے رہے اور خدا معلوم اس المیے کے باعث کتنے بچے یتیم اور کتنی خواتین بیوگی کے داغ جدائی کو سینے سے لگائے حسرت و یاس کا مجسمہ بن کر رہ جائیں گی۔ یہ سانحہ اس وقت رونما ہوا جب آئی ایس او کی جانب سے فلسطینیوں سے اظہار ِ یکجہتی کرتے ہوئے ہر سال کی طرح اس سال بھی ایک ریلی کا اہتمام کیا گیا جس میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ جب ریلی میزان چوک کے قریب پہنچی تو نامعلوم دہشت گرد نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا جس کے نتیجے میں 65 افراد شہید اور 197 کے لگ بھگ زخمی ہوگئے۔ بعض اطلاعات کے مطابق شہید اور زخمی ہونے والوں کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔ تمام ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذکردی گئی جہاں متعد د زخمیوں کی حالت نازک بیان کی جاتی ہے۔ اس سانحہ نے کوئٹہ میں قیامت صغریٰ کا منظر پیش کیا۔ شہر کے تمام تجارتی و کاروباری ادارے بند ہوگئے اور خودکش حملے کے بعد فائرنگ سے بھی متعدد افراد زخمی ہوئے۔ مشتعل نوجوانوں نے میزان چوک میں لگائے گئے سیلاب زدگان کے کیمپوں کو آگ لگا دی، متعدد گاڑیاں، عمارتیں نذرِ آتش ہوگئیں۔ شہریوں میں زبردست خوف و ہراس پایا جاتا ہے۔ کوئٹہ جانے والے تمام راستے بند کر دیئے گئے۔ کوئٹہ پولیس کے حکام کا کہنا ہے کہ ریلی کے شرکاء روکے جانے کے باوجود راستہ بدل کر مقررہ مقام کی بجائے بازار میں آگئے جس سے دہشت گردوں کو کھل کھیلنے اور اپنا منصوبہ مکمل کرنے کا موقع مل گیا۔ خفیہ اطلاع کے مطابق ریلی کے لئے مقرر کردہ راستے پر سخت حفاظتی اقدامات کئے گئے تھے لیکن راستہ تبدیل کرنے سے دہشت گردوں کو کھل کھیلنے کا موقع مل گیا۔ قوم کی اس سے بڑی بدقسمتی اور کیا ہوسکتی ہے کہ رمضان المبارک کے ماہ ِ مقدس میں لاہورکے بعد کوئٹہ میں بے گناہ انسانوں کا خون بہایا گیا اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے یوم شہادت اور کوئٹہ میں یوم القدس کے موقع پر دہشت گردوں نے خون کی ہولی سے پوری قوم کودل گرفتہ کر دیا۔صدر اور وزیراعظم نے سانحہ میں جاں بحق ہونے والوں کے ورثا سے اظہار ہمدردی کرتے ہوئے واقعہ کی فوری تحقیقات کا حکم دیا ہے۔یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ رمضان المبارک میں ایک طرف سیلاب کی تباہ کاریوں نے پورے ملک کو لپیٹ میں لے کر دو کروڑ سے زائد افراد کو متاثر اور لاکھوں کوبے گھر کرنے کے بعد قومی معیشت کو بھی متزلزل کرکے رکھ دیا ہے دوسری طرف یہ المناک واقعات اس امر کی غمازی کرتے ہیں کہ دہشت گرد ملک میں امن و استحکام نہیں چاہتے وہ ہماری یکجہتی کے درپے ہیں۔ وہ حکومت اورمعاشرے کو ہمیشہ منتشر اور مضطرب رکھنا چاہتے ہیں۔ انہیں مذہبی جذبات کا خیال ہے نہ مصیبت زدہ عوام کی کوئی پرواہ ہے۔ وہ آگ اور خون کا کھیل کھیلتے رہتے ہیں تاکہ حکومت سیلاب کی تباہ کاریوں اور ایسے سانحات کی وجہ سے معاشی استحکام کی طرف توجہ نہ دے سکے۔ اس طرح حکومت اور عوام کے لئے سیلاب زدگان کی بحالی، متاثرہ علاقوں کی تعمیر نو اور آئے روز کے بحرانوں کے باعث دہشت گردوں سے نمٹنا نہیں ہوسکے گا۔ دہشت گردوں کا ہدف یہ بھی ہے کہ ملک عدم استحکام کا شکار ہو،عوام مذہبی تقریبات کااہتمام کرنے سے گریز کریں اورایسے سانحات کے بعد مختلف مذہبی مکاتب ِ فکر کی طرف سے ایک دوسرے کے خلاف بدگمانی ، فرقہ واریت اور مذہبی محاذ آرائی شروع ہوجانے اور جان و مال کے عدم تحفظ کے باعث مذہبی، سماجی ، معاشرتی اور کاروباری تقریبات کااہتمام ممکن نہ رہے۔ اس پس منظر میں ہمیں دہشت گردوں کے ان مذموم عزائم کا ادراک کرتے ہوئے اس سے بالاتر ہو کر سوچنا چاہئے کہ ان عزائم سے کس طرح موثر اورنتیجہ خیز طور پر نمٹا جاسکتا ہے لہٰذا وسیع تر مشاورت کے ذریعے تمام مذہبی، سیاسی جماعتوں اورمختلف تنظیموں کے قائدین کو مل بیٹھ کر اس صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لئے اپنے آپ کو تیار کرنا ہوگا اوراس کے لئے ایک موثر لائحہ عمل تیار کرنے کے بعد اس پر تمام فکری صلاحیتوں کوبروئے کار لاتے ہوئے عملدرآمد کرنا ہوگا۔ اس حوالے سے قومی اسمبلی کے حالیہ اجلاس میں منظور کردہ قراردادیں بھی قومی اتحاد و یکجہتی کے لئے رہنما اصول کا درجہ رکھتی ہیں جن میں جمہوری نظام اورجمہوری اداروں کے استحکام، قومی سالمیت، یکجہتی اور بین الصوبائی ہم آہنگی پر زور دیا گیا ہے۔ ایوان نے آئین کی بالادستی، بنیادی حقوق کی ضمانت اور قانون کی حکمرانی کو بھی ناگزیر قرار دیا البتہ فوج کی طرف سے متاثرین کے لئے امدادی رقوم جمع کرنے کو غیرقانونی قرار دینے سے عسکری قیادت اور سیاسی قائدین کے درمیان غلط فہمی ملک میں انتشار کا باعث بن سکتی ہے۔ اس حوالے سے فوج کی امدادی سرگرمیوں سے خوفزدہ حکومتی اور اپوزیشن ارکان کی طرف سے قرارداد کی تیاری میں سرگرمی کا مظاہرہ کوئی اچھی بات نہیں۔ ہمیں ایسے بے بنیاد خدشات سے بالاتر ہوکر سوچنا چاہئے تاکہ دہشت گردوں کے عزائم سے مکمل اتحاد و یکجہتی کے ساتھ نمٹا جاسکے کیونکہ ابھی دہشت گردوں کی طرف سے مزید دھمکیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ عیدالفطر پر تجارتی و کاروباری مراکز میں خریداری کے لئے شہریوں کا ہجوم اور اجتماعات جمعتہ الوداع اور عیدالفطر پر مساجد اور امام بارگاہوں میں لاکھوں نمازیوں کی موجودگی کے پیش نظر ضروری ہے کہ ان کی حفاظت کے لئے حکومت ، پولیس اور دوسری ایجنسیاں موثر اقدامات کو یقینی بنائیں اور اس کے لئے بلاتاخیر ایکشن پلان تیار کیاجائے۔ عوام کی بھی یہ ذمہ اری ہے کہ وہ ایسے اجتماعات کے موقع پر اپنے گھروں کے آس پاس اجنبی اورمشتبہ افراد پر کڑی نظر رکھیں اور بروقت پولیس کو بھی مطلع کریں ہم اپنے ان کالموں میں متعدد مرتبہ یہ صائب مشورہ دے چکے ہیں کہ شہروں اوردیہات میں ماضی کے محلے داری نظام اور پنچایت سسٹم کو فروغ دیا جائے تاکہ محلے کے بزرگ اور ذمہ دارافراد ایسے اجنبی افراد کو فوراً پہچان سکیں۔ محض حکومتی حلقوں کی طرف سے ایسے المناک واقعات پر آئندہ شہریوں کے جان ومال کے تحفظ کی یقین دہانی پر مبنی روایتی بیانات مسئلے کا حل نہیں عوام میں ہر لمحہ جان و مال کے عدم تحفظ کا احساس بڑھتا جارہاہے۔ وہ سخت پریشان اور مایوس ہیں۔ رمضان المبارک کا مہینہ خون آلود ہونے کے باعث عیدالفطر ایسے مقدس مذہبی تہوار کی خوشیاں بھی ماند پڑ رہی ہیں اوریہ خدشہ بھی موجود ہے کہ دہشت گرد عیدالفطر کے اجتماعات، مساجد اور امام بارگاہوں اور کھلے میدانوں میں نماز ِ عید ادا کرنے والوں کو نشانہ بنانے کی منصوبہ بندی کرسکتے ہیں اس لئے کہ دہشت گردوں نے رمضان المبارک میں دہشت گردی کے المناک واقعات سے ثابت کر دیا ہے کہ انہوں نے اپنی سرگرمیاں ترک نہیں کیں بلکہ انہیں تیز تر کر دیا ہے لہٰذا یہ صورتحال پوری قوم، حکومت، پولیس اور تمام دوسری ایجنسیوں سے اس امر کا تقاضا کرتی ہے کہ ان سب کو کسی بھی سانحہ سے نمٹنے کے لئے پوری طرح تیار رہنا چاہئے اسی میں ہماری فلاح و بقا ہے۔